Gar Sarhaden Na Hoti
گر سرحدیں نہ ہوتیں
صاحبو کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے۔ اگر دنیا میں سرحدیں نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ آج دنیا میں 195 آزاد ممالک، ساڑھے چھ ہزار سے زائد بولی جانے والی زبانیں اور چار ہزار کے لگ بھگ مذاہب ہیں۔ کرہِ ارض دو بڑی عالمی جنگیں بھگت چکا ہے، دو ایٹم بموں کی تباہی دیکھ چکا ہے، اسکے علاوہ دیگر جنگیں علیحدہ ہیں، جہاں جہاں دنیا میں ناانصافی نکتہ عروج پر پہنچی انقلاب کا پرچم بلند ہوا اور انسان اس بات پر آمادہ ہوا کہ قربانی کی بانہوں میں ملتی ہے آزادی۔
چلیے موضوع کی طرف آتے ہیں، اگر دنیا میں کوئی ملک نہ ہوتا صرف دنیا ایک ہی ملک ہوتی تو کیا ہوتا؟ دنیا بھر میں تجارت کے لیے ایک ہی کرنسی رائج ہوتی یعنی نہ ڈالر نہ یورو نہ درہم و ریال اور نہ ہی ٹکے کا روپے سے جھگڑا۔ سرحدیں نہ ہوتیں تو بلا روک ٹوک کسی بھی علاقے میں جایا جا سکتا تھا۔ نہ ہی کسی ویزہ اور نہ ہی کسی پاسپورٹ کی ضرورت پڑتی، بس جہاز میں بیٹھے اور پہنچ گئے امریکہ جیسے علاقے میں، جہاں جی چاہتا گھوم پھر کر آ جاتے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر سب کی بول چال کا ذریعہ ایک ہی ہوتا تو عربی اور عجمی کا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا۔ سرحدیں نہ ہوتیں تو اتنے خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ بھی نہ ہوتی۔ انسان بس کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتا۔ تعلیمی میدان میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، سائنسی میدان میں سب مل کر اللہ کی حکمتوں تک پہنچنے کی جستجو کرتے۔ ہم اپنے لیڈر بھی زبان کی بنیاد پر نہ چنتے بلکہ کارکردگی کو مدنظر رکھا جاتا۔
ان 195 ممالک نے نجانے کتنے جذبہ حب الوطنیوں کو جنم دیا۔ کتنی جانوں کے نذرانے دیے گئے، کتنے سہاگ لٹے، کتنے گھر اجڑے۔ آج بھی ہم ایک دوسرے کی سرحد بنا ویزہ کے عبور کرنے کی کوشش کریں تو سینا گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے۔ پر اب بھی کچھ سرحدیں خون کی نالیوں کی طرح آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ ایک پیر ایک ملک میں، دوسرا پیر دوسرے ملک میں ویزے کی کوئی پابندی نہیں۔ پر ہر سرحد پر ایسا نہیں ہر دیس ایسا نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا دنیا میں اگر سرحدیں ختم ہو جاتیں ہیں تو انسان کے جذبہ مسابقت کو کیسے تسکین ملتی۔ وہ مقابلہ کس سے کرتا، سرحدی نظام ختم تو جذبہ حب الوطنی کہاں جاتا، ہتھیاروں کی صنعت کا کیا ہوتا، ایک کرنسی رائج ہوتی تو مالیاتی اور معاشی ماہرین کیا کرتے، سیاست دان کونسے سیاسی داؤ پیچ استعمال کرتے، مملکتیں اور صوبے تو ہوتے نہیں بس پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرنا پڑتا۔
اب کھیلوں کے مقابلوں کو لے لیں مختلف ملکوں کے درمیان مقابلہ ہو ہار جیت، زندگی موت کا مسئلہ بن جاتی ہے پر فرنچائز مقابلوں نے اس میں بھی ایک نیا رنگ ڈال دیا۔ زبان ایک ہو جانے سے بہت سی لڑائیاں بھی ختم ہو جاتی اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے میں آسانی ہو جاتی۔ پیشہ ورانہ مسابقت اپنی جگہ رہتی میڈ ان چائنا ہو یا میڈ ان امریکہ کی جگہ میڈ ان فلاں فلاں کمپنی کی تختیاں نکل رہی ہوتیں، رہی مصروفیت تو انسانیت اس کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیتی۔
اگر اسلام کے پیغام کو بھی دیکھیں تو وہاں سلطنتوں کی بجائے معاشروں کے قیام کو ترجیح دی گئ، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت حاصل نہیں، پر دھرتی پر لکیریں کھینچی گئیں اور سرحدیں بنتی گئیں۔ مقابلے کی یہ جنگ جاری و ساری ہے اور اسکے لیے نت نئے بیانئے ایجاد ہو رہے ہیں نجانے ابھی کتنے امتحان اور باقی ہیں؟
پر صاحب یہ جنتی دنیا بننے کا خواب شاید خواب ہی رہ جائے۔