Dollar Aham Kyun?
ڈالر اہم کیوں؟
صاحبو آجکل ہر طرف مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ مملکت خداداد میں بھی مہنگائی نے عوام کے کس بل نکال دیے ہیں۔ عوام حکومت وقت سے مہنگائی پر سوال کرتی ہے جواب میں عقل و دانش کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے وزراء مہنگائی کے فوائد گنوانے بیٹھ جاتے ہیں زیادہ شور مچا تو پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں پر ہرزہ سرائی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ داری بھی کیا شریفانہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ہے.دنیا بھر میں مہنگائی اور کساد بازاری کا یہ کھیل جب سے کاغذی روپے میں لین دین شروع ہوا تب سے جاری و ساری ہے۔
امریکی ڈالر کے معیشت میں آنے کے بعد اقتصادی پالیسیاں کچھ اس انداز میں بنی کہ ڈالر دنیا کی معیشت پر حاوی ہوتا چلا گیا، امریکی معیشت ترقی اور مضبوطی حاصل کرتی گئی اور کمزور ممالک کا بیڑا غرق کرتی گئی۔ یورپی برادری نے اسکا تدارک یورو کرنسی نکال کر کیا اور اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔
اس ڈالر کی جنگ نے کمزور اقوام کو ایک نہ ختم ہونے والی معاشی جنگ میں دھکیل دیا، ہر ملک بالخصوص ایشیائی ممالک کے نظام معیشت میں یہ بات بٹھا دی گئی کے کہ ڈالر کی ذخائر ہی آپکی معیشت اور آپکے روپیہ کو مضبوط کرسکتے ہیں اسکے لیے اپنی ایکسپورٹ بڑھائیں، اپنی افرادی قوت کو بیرون ملک کام کرنے کے لیے بھیجیں، وہ آپکو واپس ڈالر ملک میں بھیجیں گے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو، یا پھر آپ قرضہ لیں اسکے لیے IMF اور عالمی بینک جیسے ادارے میدان میں کود پڑے۔
ذرا سوچیے صرف ڈالر کمانے کے لیے ہم اپنے ملک کی بہترین اجناس و خدمات ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خوش ہوتے کی ہم نے ملک کی ایکسپورٹ بڑھاکر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا دیے، جبکہ تاجر شرح ڈالر یعنی روپیہ کی کمزور حالت دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ میں نے زیادہ منافع کما لیا۔ ہمارا بہترین دماغ اور محنت کش طبقہ بھی ڈالر کمانے ملک سے باہر چلاجاتا ہے اور اپنی جوانی کا بڑا حصہ بیرون ملک گزار دیتا ہے، نہ اپنے بچوں کا بچپن دیکھ پاتا نہ بیوی کی جوانی۔ اسکی زندگی خاندان کے لیے دی گئی قربانی اور ملک کے لیے ڈالر کمانے میں گزر جاتی ہے۔ اب رہ گیا بہترین دماغ تو اسکو ڈالر اور ڈالر دینے والی حکومتیں اتنی بھاتی ہیں کہ وہ انکا حصہ بن جاتا ہے۔
اگر غور کریں اس ڈالر کی جنگ میں غریب ممالک نے کیا کھویا کیا پایا، اپنی بہترین پیداور دوسروں کو دے دیں خود پر قرضوں کے بوجھ چھڑوائے، ملک کی خاطر ٹیکسوں کا بار بھی خود اٹھاتے ہیں، پھر یہی ڈالر والے ملک اپنی گوری چمڑی کا رعب لیے ان غریب ممالک کو امداد یا قرضہ دیکر یا سرمایہ لگا کر ان پر احسان کرتے ہیں اور پھر اپنے منافع کی صورت میں یا قرض کی واپسی کی شکل میں ڈالر واپس منگا لیتے ہیں۔
زمبابوے، وینزویلا اور بہت سے ممالک کی معیشتوں کا حال ہمارے سامنے ہے، ڈالر نے انکی کرنسیوں کا کیا حال کیا۔ اگر ساری دنیا میں صرف ڈالر کو ہی تجارت کا ذریعہ بنالیا جائے اور دیگر تمام کرنسیاں بند کردی جائیں تو یہ کساد بازاری اور مہنگائی کا عالمی طوفان رک سکتا ہے۔ ہر شخص پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، چین سے سو سکتا ہے، اپنی اگائی ہوئی گندم خود کھا سکتا ہے۔ اپنے خاندان کے ساتھ اپنا بہترین وقت گذارسکتا ہے۔
شاید یہ ڈالر انسانی تاریخ میں ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ جسکی وجہ سے دنیا میں معاشی عدم استحکام پیدا ہوا، غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا۔ اور غربت جرم کو جنم دیتی ہے۔
دنیا کے سارے غریب اور معاشی بدحالی کا شکار ممالک چاہے وہ ایشیائی ممالک ہوں یا آفریقی، غربت اور معاشی بدحالی نے وہاں جرائم کو جنم دیا، اسمگلنگ، رشوت خوری، لوٹ مار، نشہ، جسم فروشی وغیرہ وغیرہ، پھر وہاں امن لانے کے لیے ڈالر کبھی اسلحہ کی شکل میں تو کبھی امداد یا قرض کی شکل میں آیا۔ الغرض مہنگائی کی بنیاد شاید یہ ڈالر ہی ڈال رہا ہے، اسکو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اسکی بلندی پرواز کو قابو نہ کیا گیا تو، شاید ہم صرف ٹیکس کے ہدف ہی پورے کرتے رہ جائیں۔
اگر اسلامی معاشی نظام کو جدید معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرکے بغور مطالعہ کیا جائے، تو دنیا کے معاشی مسائل کا حل اسلامی معاشی نظام میں ہی ہے۔ جس میں مساوات کا تصور دیا گیا ہے۔
باقی رہے نام اللہ کا