Corruption Hai Kya Cheez
کرپشن ہے کیا چیز
صاحبو کرپشن ہے کیا چیز یہ سوال پاکستان میں ایک پہیلی بنکر رہ گیا ہے۔ حزب اقتدار کے مطابق حزب اختلاف کرپٹ ہے۔ حزب اختلاف حزب اقتدار کے کارناموں کا پرچار کرتی رہتی ہے۔ رہ گئے عوام تو وہ بیچارے جسکا ڈھنڈورا زیادہ پر جوش ہو وہ ادھر لڑھک جاتے ہیں۔ معاملہ حزب اقتدار حزب اختلاف عدلیہ نیب اور میڈیا میں پنگ پانگ بنا رہتا ہے۔ سوشل میڈیائی بقراط بھی اس لعن طعن کے کھیل میں پیچھے نہیں رہتے۔ کیچڑ میں خوب چھلانگیں لگاتے ہیں۔ کرپشن کیا ہے۔
1۔ اگر آپ کاروبار کرتے ہیں۔ مگر پورا صوبائی اور وفاقی ٹیکس ادا نہیں کرتے تو آپ کی کمائی کالے دھن میں شمار ہوگی۔ بھلے آپ دوسرے کاروباری اصولوں کی پوری پابندی کرتے ہوں۔ مثال کے طور پر پورا تولتے ہوں۔ ملاوٹ نہ کرتے ہو۔ اپنے ملازمین کا خیال رکھتے ہوں۔ انکی طبی ضروریات پوری کرتے ہوں کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات اچھی طرح کرتے ہوں۔ ناجائز منافع خوری نہ کرتے ہوں ان سے سرکار کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ٹیکس پورا دینا ہوگا۔
2۔ اگر آپ نقد کاروبار کرتے ہیں بذریعہ بینک لیں دین نہیں کرتے تو بھی آپکی آمدنی کالا دھن شمار ہوگی۔
3۔ بیرون ملک سے ڈالر یا کسی اور کرنسی کی ترسیل بذریعہ بینک نہیں کریں گیں تو یہ بھی بڑا جرم ہے۔ اب تو حکومت نے بھی ڈیجیٹل اکاونٹ کے ذریعہ غیر ملکی زر مبادلہ کی تر سیل آسان بنادی ہے۔
3۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑھنا بھی ملک لیے بڑا ضروری ہے ورنہ گرے لسٹ میں آجاتے ہیں۔ عالمی بینکوں کا قرضہ بھی اتارنا ہوتا ہے جتنا زیادہ ڈالر آئے گا اتنا ہی قرضہ اترے گا پھر بعض محب وطن افسران کی تنخواہ جو صرف وطن عزیز کی خاطر ملک میں فرائض انجام دے رہے ہیں ڈالروں میں جاتی ہے انکے مسائل اپنی جگہ ہیں۔ بہرحال ڈالروں کی ترسیل ہر حال میں بذریعہ بینک ہی ہونی چاہیے۔
4۔ اگر آپ اپنے کاروبار کا کسی مناسب فرم سے آڈٹ نہیں کراتے تو بھی آپ کرپشن کے دائرے میں آسکتے ہیں۔ کارپوریٹ ثقافت کو اختیار کرنا اشد ضروری پے۔
5۔ یہی حال انفرادی سطح پر بھی ہے اگر آپ ٹیکس نہیں دیتے اور آمدنی کے ذرائع نہیں بتاتے اور آپ کا طرز زندگی آمدنی سے میل نہیں کھاتا تو آپ دائرہ کرپشن میں آسکتے ہیں۔
6۔ وہ تمام کام جنکی اجازت قانون سماج نہیں دیتا وہ سب غیر قانونی دھندے ہیں۔ مثلا ملاوٹ ذخیرہ اندوزی جعلسازی جعلی ادویات ناجائز منافع خوری وغیرہ سب دائرہ کرپشن میں ہی آتے ہیں۔ دیگر ناجائز ذرائع یعنی منشیات کا کاروبار فحاشی کا دھندا قتل و غارت گری اسکا جواب اوپر بھی ہوگا۔
7۔ رہ گیا سوال کے کاروباری سے لے کر عام آدمی تک سب اگر ٹیکس دے کر آمدنی کرپشن سے پاک کرلیتے ہیں تو کیا اسکے بعد ٹیکس کے بدلے سہولیات مانگنا انکا حق ہے۔ مثلا عام آدمی صحت و صفائی اچھی تعلیمی سہولیات جدید ذرائع آمدورفت اور مہنگائی پر کنٹرول کی توقع کرتا ہے اور سستا اور جلد انصاف چاہتا ہے۔ اسکے ٹیکس کا پیسہ کون کھا گیا۔ کیا یہ پوچھنا اسکا حق ہے۔
یہ سب سوال آہنی معاملہ ہیں۔ وسائل کی تقسیم آئین کے مطابق ہی ہونی چاہئے عوام آئین مقدس کو چیلنج نہیں کرسکتی۔ عدلیہ کے تقدس کو بھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔ رہ گئے محافظین جنکی وجہ سے ہم بنا بجلی سکون سے سوتے ہیں وہ ہماری حفاظت کے لیے جاگتے اور آپنے سونے کے اوقات میں کیا کرتے ہیں یہ ہمارا مسئلہ نہیں، المختصر ٹیکس دیجئے کارپوریٹ ثقافت اپنائے اپنے لیے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیونکہ مہذب قومیں ہی ٹیکس دیتی ہیں۔ صاحبو اگر غور کیا جائے مملکت خداد میں کرپشن کا اصل جھگڑا اوپر بیان کی گئی وجوہات پر ہی ہے۔
اصل مسائل مثلا ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت ستانی اقرباپروری وغیرہ وغیرہ یہ تو شاید دائرہ کرپشن سے باہر ہیں اس لیے انکا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ عوام کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے، معادنی پانی کی بوتلیں خریدتے پھرتے ہیں، گھریلو استعمال کے لیے پانی کے ٹینکر ڈلواتے ہیں، بجلی آتی جاتی رہتی اسکے لیے جنریٹر گھر میں لازم رکھتے ہیں، چوری ڈاکے سے بچنے کے لیے چوکیدار رکھنا بھی بڑا ضروری ہوگیا ہے، دودھ لو تو اضافی پانی کے ساتھ مٹی فری، پھلوں کو میٹھا کرنے لیے مٹھاس کے ٹیکے، اب تو قبر بھی کھانچہ دیے بغیر نہیں ملتی۔ اب بندہ کرے تو کیا کرے۔ زندگی ہر قدم اس مملکت خداد میں ایک نئی جنگ بن چکی ہے۔
عوام کے تو بیچاروں چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں سادہ لوح لوگ تو ابھی تک کھیرا کاٹنے کا شرعی طریقہ سیکھ رہے ہیں جبکہ دنیا کھیرے کی پیداوار بڑھانے کے طریقوں پر غور کررہی ہے۔ رہ گئے اشرافیہ تو انکو اشرفیاں گننے سے فرصت نہیں۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے گندا ہے پر دھندا ہے یہ۔ خدا ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے خود کو ٹھیک کریں گے تو معاشرہ خودبخود ٹھیک ہوگا۔ اخلاقیات درست کرلیں اقتصادیات خود درست ہو جائے گی۔