Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Corona Ki Waba Aur Siasi Tanao

Corona Ki Waba Aur Siasi Tanao

کرونا کی وبا اور سیاسی تناو

صاحبو کرونا کی چوتھی لہر نے مملکت خداد پر آجکل دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ لہر پڑوسی ملک بھارت سے ڈیلٹا وائرس کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ اس ڈیلٹا وائرس نے مملکت خداد کے بہتر ہوتے حالات کا ڈیلٹا ہی خراب کرکے رکھدیا۔ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت سب عالم پریشانی میں آگئے ہیں۔ خاص کر حکومت سندھ جہاں جیالوں کا راج ہے پہلی لہر کی طرح چوتھی لہر میں بھی سخت اور سنگین اقدامات کر ڈالے۔ مگر ایک بڑا فرق پہلی اور چوتھی لہر کے درمیان کرونا ویکسین کا ہے۔ پہلی لہر میں ویکسین نہ تھی مسلمان ممالک دعاوں سے کام چلارہے تھے جبکہ غیر مسلموں نے چوتھی لہر سے پہلے ہی ویکسین بنالی مگر اسکو عوام کو بذریعہ ٹیکا لگانا بھی ایک بڑی مہم ہے۔ مملکت خداد میں ہمارے بہت سے جید سیاسی رہنماوں نے دیگر بہت سے ساینسی مفکرین کی طرح اس ویکسین کو عالم اسلام کے خلاف سازش مسلمانوں کی نسل کشی جسم میں چپ داغ دی جاے گی وغیرہ وغیرہ جیسے سازشی منصوبوں سے عوام کو آگاہ کر دیا۔ ہماری سادہ لوح عوام ویکسین اور وہ بھی کفار کی بنائی ہوئی اس سے محتاط ہوگئے، مگر صاحب حکومت سندھ کی دور اندیشی دیکھیے موبائل سم بند کرنے کی ایسی دھمکی لگائی کے لگ گئے سب لائن میں۔ صاحبو اگر وفاقی حکومت اور حکومت سندھ کے کرونائی وبا سے نمٹنے کے طریقے کار کو دیکھیں تو دو مختلف نظریات سامنے آتے ہیں۔ حکومت سندھ کو عوام کی جان کی اتنی فکر تھی جو تہتر سالہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ وزیر اعلی صاحب نے تو ہاتھ تک جوڑ لیے کے خدا کے لیے کرونا پر سیاست نہ کریں جان سلامت رہی تو مال بعد میں بھی بنالیں گے۔ پھر بیچارے تھک ہار کر آمریکہ جابیٹھے۔ اور اب چوتھی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

دوسری طرف وفاقی حکومت جو ہاتھ میں بلا لیے سب کچھ پچیس سالہ جدوجہد کی طرح کم ازکم پچیس سال میں ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ کرونائی تالہ بندی یعنی لاک ڈاون کو سمارٹ لاک ڈاون پر لے آئی کے بھائی خود بھی کھاو اور ہمارے لیے بھی لے آو۔ مگر ایک بات کمبخت سمجھ نہیں آتی یہ جلسے جلوسوں میں کرونا کہاں مرجاتا ہے۔ سارے حفاظتی اقدامت گئے تیل لینے، حزب اختلاف عوام کے پاس ہمیں واپس لاو اور حزب اقتدار ہمیں اگلی دفعہ دوبارہ لاو کے نعرے کے ساتھ جھولی پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔

صاحب حزب اختلاف کی جماعتوں کے بیانات سنکر ایسا لگتا ہے کے ملک میں شدید معاشی بحران ہے ہر شخص بے روزگار اور فاقہ زدہ نظر آتا ہے۔ جبکہ اہل اقتدار اور انکے رفقا کار یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کے مملکت خداد میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں ہر گلی سے تیل نکل رہا ہے۔ حالانکہ گلیوں میں تو گٹر ابل رہے ہیں۔ اور رہ گیا تیل وہ تو عوام کا نکل رہا ہے۔ اب اسمبلیوں کی اکثر کارروائیاں دیکھیں تو وہ یوٹیوب چینلوں کی کمائی کا ذریعہ نظر آتی ہیں۔ حزب اختلاف حزب اقتدار کی نالائقی اور صاحب اقتدار پارٹی کے ممبران کو بدعنوان ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ اکثریت پہلے حزب اختلاف کے پارٹی ممبران تھے۔

حزب اقتدار گذشتہ قریبا تین سالہ دور میں حزب اختلاف کی کرپشن کی ہوش اڑا دینے والی داستانیں سناتے رہتے ہیں۔ صاحب اقتدار کا دعوی ہے کے مملکت خداد میں تہتر سالوں سے کرپشن ہورہی ہے یہ ایک پانچ سالہ دور میں ختم نہیں ہوسکتی۔ تبدیلی کی راہ میں اصل رکاوٹ یہی بدعنوانیاں ہیں۔ مگر صاحب حزب اختلاف کی بنیادی پارٹیوں کی سیاسی عمر شاید تہتر سال بھی نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی مزید تہتر سال چاہتی ہے۔ یا بس ہمیں گھبرانا نہیں ہے۔

حکومت وقت کے نظریہ تبدیلی پر کام یقینا جاری و ساری ہے مگر دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس تبدیلی کے سفر میں کپتان کے شریک کار ہے وہ پہلے ان تمام پارٹیوں کا حصہ تھے جن پر آج بدعنوانی کے ببانگ دہل دعوے ہیں۔ کپتان کے ایک کھلاڑی جب حزب اختلاف پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو جوش جزبات میں اتنا زور لگاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ موصوف قبض کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

بہرحال شاید بات زیادہ آگے نکل گئی۔ کرونائی وبا سے بچنے کے لیے سب سے اہم عمل کرونا ویکسین ہے جو عوام کو ہر حال میں لگوانی ہے۔ حکومت سندھ نے اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا تو وفاقی معاشی بقراطوں نے معیشت کا پہیہ بند ہوجانے اور IMF کے مزید دوسال قیام بڑھ جانے کا زمہ دار اس فیصلے کو ٹہرادیا۔ ایک تو کرونا کی پریشانی تو دوسری طرف معاش کا مسئلہ۔ وفاق کہتا ہے ویکسین لگواو اور سیاحت پر جاو معیشت میں روانی لاو۔ صوباییت کہتی ہے نہ اندر آنے دیں نگے نہ باہر جانے دینگے۔ سب سے پہلے ویکسین۔ اب کوئی بتلاے کہ ہم بتلائیں کیا۔ کس کی سنیں کس کا کہا مانیں۔ ایک بات سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے کرونا یقینا ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے عوامی صحت کو خاصا خطرہ ہے پر پینے کا صاف پانی صحت مند ماحول۔ ان سب کا نہ ہونا بھی انسانی صحت کہ لیے کرونا کی وبا کی طرح خطرناک ہے۔ مملکت خداد میں صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں کو ملکر بہتر عوامی مفاد میں اسپر کام کرنا ہوگا نہ کہ اس دور کرونا میں ایکدوسرے کو کہتے رہے تم کرونا، تم بھی کچھ کرونا۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat