Barhti Hui Mehangai Aur Ghurbat
بڑھتی مہنگائی اور غربت
صاحبو مملکت خداد میں موجودہ حکومت کا سب سے بڑا اندرونی مسئلہ مہنگائی ہے جو شتر بے مہار کی طرح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور عوام غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیے جاتے ہیں۔ حکومت وقت نے اپنی حکومتی اننگز کا آغاز ایک کروڑ نوکریوں کے دیومالائی ٹارگٹ سے کیا تھا تادم تحریر ڈھائی سال سے زائد عرصہ گزرنے بعد بھی کروڑ نوکریاں محض ایک خواب بنکر رہ گئیں ہیں۔ جو محض پیٹ کی خرابی کے باعث نظر آتا ہے۔ صاحبو حکومت وقت کو کرونا جیسی وبا کا سامنا کرنا پڑا جسنے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھدیا۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو بغض میں لیے گیے چند فیصلوں سے ہٹ کر کرونائی وبا عوامی غیر ذمہ داری کے باوجود کسی بڑے جانی نقصان کا باعث نہ بنی اللہ کی مہربانی اور بڑا رحم۔ بہرحال صاحب غریبی کی طرف آتے ہیں۔ ایک طرف حکومتی دعوے کے مہنگائی نے عوام کا معیار زندگی ملک کی تہتر سالہ تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ہر شخص کو روٹی کپڑا اور مکان میسر ہے۔ کیوں نہ ہو حکومت پچاس لاکھ گھر بھی تعمیر کر رہی پے۔ ادھرحزب اختلاف غم غریبی میں دبلے ہوئی جارہی ہے اور حالات انکے قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ بقول حزب اختلاف اب مملکت خداد میں سارا سال رمضان کا سا ماحول رہتا ہے۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے اگر اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو بیروزگاروں اور مانگنے والوں کی تعداد میں بلکل ایسے ہی اضافہ ہورہا ہے جیسے ڈالر کی قدر میں۔ مساجد میں جائیں تو روزانہ کے مانگنے والوں کے ساتھ ساتھ کوئی ایک نیا خاندان اپنے گھر کی خواتین کے ہمراہ کرائے کا گھر ہے مالک مکان دھمکی دے رہا ہے نوکری چھوٹ گئی ہے۔ جوان بہنوں کی شادی کرنی ہے بیمار ماں ہے اور اسطرح کی بےشمار المناک داستانوں کے ساتھ نمازیوں سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہر کے ہر ٹریفک سگنل پر عاقل و بالغ اور تینوں جنس سے تعلق رکھنے والے ہر آنے جانے والی گاڑی سے اپنا حق وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب دراز ہو رہا ہے ان افلاس کے ماروں نے گھروں اور دفتروں کی گھنٹیاں بجانا شروع کردی ہیں۔ اور اس غربت مٹاو تحریک کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے اپنے گاوں دیہات اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے گلی محلوں کا انتخاب کرلیا ہے۔
کسی بڑے گروسری اسٹور پر جائیں تو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ملکی حالات بقول سیاستدانوں کے نازک ہیں۔ ٹرالیاں در ٹرالیاں اجناس سے لدی ہوئی ہوتی ہیں اوپر سے لکی ڈرا میں ملنے والے انعام کی لالچ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک پہلو ہے دوسرا تاریک پہلو یہ ہے کہ ان بڑے اسٹوروں کے باہر سفید پوش لوگ جو بیروزگاری سے مجبور ہو کر ہاتھ میں قیمتی موبائل جو ظاہر ہے اب ضرورت زندگی ہے تھامے صرف گروسری دلادیں کی گزارش کرتے نظر آتے ہیں۔ الغرض حکومتیں دنیا سے اور عوام سے مانگ رہیں ہیں اور عوام حکومت سے اور آپس میں مانگ رہے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومتی اقدامات براے غربت یعنی احساس پروگرام یہ کن غریبوں کے لیے ہیں مزید یہ کہ فلاحی تنظیمیں جنکی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو روز برقی و سماجی میڈیا پر غریت اور غریب کی حالت کی ایسی عکاسی کرتے ہیں کہ سخت سے سخت دل افراد پگھل جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سرمایہ دار بھلے اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتے غریبوں کے لیے راشن قربانی کے جانور بچوں کے کپڑے کھلونے سب پہنچاتے ہیں اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے ویڈیو بھی بنواتے ہیں۔ کچھ فلاحی تنظیمیں اشتہاروں کی بھرمار کرکے لوگوں کو خاص کر شہر کراچی میں پلوں کے نیچے اس دعوے کے ساتھ کہ یہ ملک کا سب سے بڑا دسترخوان ہے روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھلاتے۔ اب تو ماشاللہ کراچی کی پلوں کے نیچے اندرون سندھ اور پنجاب کے تارکین علاقہ نے معہ اہل و عیال سکونت بھی اختیار کرلی ہے۔ اخراجات کا مسئلہ بھی حل رہاش بھی مفت، کھانے کا بھی مسئلہ نہیں۔ اور لب سڑک ہونے کی وجہ سے صبح ہوتے ہی گھر کے بزرگ بچے اور خواتین اللہ کے نام پر لگ گیے دھندے پر اور گھر کے جواں مرد رات کے اندھیرے میں مسلمانوں کے لیے جنت کمانے کے مواقع فرائم کرنے کے لیے غریبوں کی آبادی بڑھانے کے لیے رات بھر مزدوری کرتےہیں۔ اسکے لیے محکمہ بجلی کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے۔ اب انہی عوامل کی وجہ سے شاید ہمارے وزرا کی وزارت اور روزگار بھی چلتا ہےاور دنیا بھر میں مانگنے کا جواز ملتا ہے۔ ملک نازک صورتحال میں ہے عوام کو چاہیے پیٹ کا کرٹیکس دیں وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا کہ اتنا کام ہونے کے باوجود غربت اور مہنگائی میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ جواب شائد یہ ہے حکومت سے لیکر عوام تک سب نے مانگنا شروع کردیا ہے اور عوام سے لیکر حکومت تک سب نے دینا بھی مگر کام کرنے لیے ٹیکنالوجی اس کے لیے ہم مغرب یا دوسرے ترقی یافتہ ایشیائی ممالک کے محتاج ہیں۔ اسکی سب سے بڑی مثال ہماری ریلوے ہے جو آج تک سدھر نہ سکی جس پر اربوں روپے کا خسارہ ہوا کچھ نے تو حج و عمرہ کرلیا پر بہت سے ابھی بھی کرونا کی وجہ سے انتظار میں ہیں۔ اورنج ٹرین جسں پر قوم کو مزید قرض زدہ کرنے کا الزام ہے اسکا موزانہ اگر ہم اپنی وراثت میں ملی ریلوے سے کریں تو شاید ہر ذی شعور یہ ہی کہہ گا اورنج ٹرین کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کردیا جائے۔ بہرحال صاحب یہ مہنگائی اور غربت کا مسئلہ ہر دور حکومت میں رہا ہے اور اسکے لیے حکومتی ارکان دفاعی بیانات جبکہ حزب اختلاف اپنی واپسی کی بنیاد بناتے رہیں گے۔ اسکا حل تعلیم شعور اور ہنر مندی میں اضافہ ہے کیونکہ کچھ کر دکھانے کا جزبہ ہر انسان میں ہوتا بس اسکو صحیح راہ دکھانے کی ضرورت ہے۔