Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Badalte Lotay

Badalte Lotay

بدلتے لوٹے

صاحبوں پاکستانی سیاست میں لفظ لوٹا بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اگرچہ عام زندگی میں لوٹے استنجا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، پھر مسلم شاور کی انقلابی ایجاد کے بعد لوٹوں کی اہمیت قر یبا ختم ہوچکی تھی کے سیاسی لوگوں نے اس کا مقام پھر سے بلند کردیا۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے ہر شخص کے ساتھ لفظ لوٹا چپک کر رہ گیا پر صاحب جمہوریت بڑی چیز ہے اور بہترین انتقام بھی، بدعنوانی کے بد ترین الزامات اور پھر لوٹے جیسی کارآمد شے سے جڑ جانا بھی سیاست دانوں کو باز نہ رکھ سکا۔

موجودہ حالات دیکھ کر کارکن تو الگ سیاسی پارٹیوں کے سربراہان جو مخالف کو گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے پر تلے رہتے تھے آج ایسے شیرو شکر ہوئے ہیں جیسے جڑواں بھائی ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ سیاسی وفاداریاں کیوں تبدیل کرتے ہیں؟ خاص طور پر بار بار کیوں تبدیل کرتے ہیں کیا ان کی سوچ اور نظر یے میں متواتر انقلاب آتا ہے یا وزارتوں کی خواہش یا پھر ڈالروں کی بھاری کھیپ؟ عوام میں مقبول عام بیانیہ تو یہ ہی ہے کہ بھاری رقم ہی لوٹوں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کا اصل محرک بنتی ہیں۔

مگر یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی جو پارٹی پہلے کسی پر بدعنوانی کے بدترین الزامات لگاتی تھی، اور عوام کو ان کے ثبوت بھی دکھارہی ہوتی ہے، بلکہ عدالتی کارروائی بھی کروادیتی ہے جیسے ہی کوئی لوٹا اپنا رخ تبدیل کرتا ہے اس کی حامی پارٹی اس کے سارے گناہ بخشوادیتی ہے اور وہ سیاست دان ایسا ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔ اب کچھ مہرباں تو ایسے بھی ہیں جو مختلف پارٹیوں میں ایسے آتے جاتے رہتے ہیں جیسے کھلاڑی مختلف فرنچائز میں۔

اگر بنیادی محرک پیسہ ہی ہے تو پھر بدعنوانی ثابت ہونی چاہیے اور اگر نہیں تو پھر یہ الزامات براے الزامات ہی ہیں یا اندرون خانہ کچھ اور معاملہ؟ یا یوں کہہ لیں سب کے لیے لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ ان تمام پہلوؤں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو لوٹے ہی نہیں الزامات لگانے والے، احتساب اور انصاف کرنے والے بھی مشکوک ہوجاتے ہیں، کیونکہ اس کھیل میں لہو سبھی گرم کررہے ہیں اور شاید جیب بھی۔ رہ گئے بے چارے ووٹر اور سماجی میڈیا پر کام کرنے والے رفقاء تو وہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے ہوئے ہیں۔ بس کبھی بریانی پر بہل گئے تو کبھی قیمے والے نان پر خوش۔

المختصر قصہ یہ ہی سمجھ آتا ہے کے فٹبال اور کرکٹ کے کھیل کی طرح سیاست خاص طور پر برصغیر پاک وہند کی سیاست ایک پیشہ ورانہ کھیل بن چکی ہے، کھلاڑیوں کی طرح سیاست دان بھی پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جسں طرح کوئی کھلاڑی گیند بازی کا ماہر تو کوئی بلے بازی کا، سیاستدان بھی بیان بازی اور سیاسی داو پیچ اور اپنے قیمیائی نان یا بریانی کے غمخوار ووٹروں کی بدولت کبھی کسی گلی میں تو کبھی لال حویلی میں گھومتے نظر آتے ہیں اور ساتھ میں تمام اداروں کو چاہے میڈیا ہو یا انصاف کرنے والے، سب کی روزی روٹی کا بندوبست بھی کردیتے ہیں۔

اس سارے کھیل میں عوام کے لیے بھی قیمیائئ نان اور بریانی سے ہٹ کر بھی کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے کبھی کہیں کوئی سڑک بن گئی تو کہیں کچر ا صاف ہوگیا، کبھی گرین لائین تو کبھی صحت کارڈ اور تو اور سماجی کارکن بھی اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام کے دکھوں کا بھرپور مداواہ کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ یہ دنیا ایک دھوکہ ہے آپ آخرت سنواریے اللہ بھلا کرےگا۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat