Arshad Nadeem Ka Javelin Throw
ارشد ندیم کا جیولین تھرو
صاحبو کھیلوں کی دنیا میں پاکستان کا نام سب سے زیادہ کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے لیا جاتا ہے جو اجتماعی کھیل ہیں جبکہ انفرادی کھیلوں میں اسکواش میں پاکستان نے بڑا نام کمایا۔ کرکٹ کا کھیل تو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ مملکت خداد میں زندہ ہے اور سخت مقابلے کے ماحول میں پاکستانی کھلاڑی نام بھی کما رہے ہیں اور مال بھی۔۔ رہ گئی ہاکی اسکا سنہرا دور 1994 کا عالمی کپ جیتنے کی بعد اندھیروں میں کہیں کھو گیا ہے۔ ہاکی اب صرف لڑائی جھگڑوں میں ڈنڈوں کی جگہ استعمال ہوتی ہے۔ رہ گیا اسکواش تو اسکو لوگ صرف ایک مشروب کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ہاکی اور اسکواش کی تنزلی کیوں ہوئی اسکی ایک طویل داستان ہے۔
آج کل ملک جاپان کے شہر ٹوکیو میں 2020 کے اولمپک مقابلے جاری و ساری ہیں جو بوجہ وبا کوڈ 2021 میں کھیلے جارہے ہیں۔ اولمپک مقابلوں میں صرف ہاکی کا کھیل ہی ایسا تھا جہاں پاکستان نے طلائی تمغہ جیتا۔ 1984 میں امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں آخری مرتبہ اولمپکس میں پاکستانی ترانہ کی آواز سنائی دی۔ اب دوبارہ اولمپکس میں ترانہ سننے کو کان ترس رہے ہیں اور زندگی کم ہورہی ہے۔
جیولن تھرو یعنی نیزہ پھنکنے کا کھیل۔ شاید بہت سے لوگ مملکت خداد میں ایتھلیٹکس کے اس کھیل کا نام بھی نہ جانتے ہوں۔ مگر ارشد ندیم نے جیلوین تھرو کے اسں کھیل کےفائنل راؤنڈ میں پہنچ کر پاکستان کو طلائی، چاندی یا کانسی کسی بھی تمغے کی امید دلادی۔ پوری قوم سات اگست 2021 شام چار بجے پاکستانی وقت کے مطابق ٹیلی ویژن اسکرین یا پھر موبائل فون تھام کر بیٹھ گئی، پورا ملک ارشد کی کامیابی کے لیے دعائیں کررہا تھا۔ مقابلے میں بھارتی سورما نیرج چوپڑا بھی تھا۔ جسکو ابتدائی راونڈ میں ارشد نے پچھاڑ دیا تھا۔ مقابلہ بھارتی سورما کئی وجہ سے ایک جزباتی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ مگر صاحب دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گئے کے مصداق ارشد فائنل راونڈ میں بازی نہ ما رسکا اور اولمپکس مقابلوں میں قومی ترانہ سننے کا خواب پھر سے ٹوٹ گیا۔
چھ فٹ دو انچ اور پچانوے کلو گرام وزن رکھنے والے پاکستانی نوجوان ارشد ندیم جو اس وقت ہر پاکستانی کی دل کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ ساوتھ ایشین گیمز کے طلائی تمغہ سے لیکر ٹوکیو اولمپکس کے فائنل راونڈ تک کے سفر تک نجانے کتنے نشیب و فراز سے گزرے، مگر آفرین ہے اس نوجوان پر جو اپنی ذاتی محنت اور ذاتی مگر بہت محدود وسائل پر مشتمل تربیت کی وجہ سے جو ارشد کو اس مقام پر لے آئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ طلحہ طالب، ارشد ندیم اور ان جسے سینکڑوب کب تک استحصال کا شکار ہوتے رہنگے۔
پاکستان میں ایک گمنام انفرادی کھیل جو دنیا بھر میں بڑا نام ور ہے ہمارے لوگ اپنے بل بوتے پر کھیلتے ہیں اور اولمپکس کے میدانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ باکسنگ کے کھیل میں حسین شاہ کو کون بھول سکتا ہے جنہوں نے ڈھلتی عمر میں سیول اولمپکس 1988 میں مملکت خداداد کے کے لیے کانسی کا تمغہ جیتا۔ انکی جدوجہد پر بنائی گئی فلم سے انکے حالات کا اندازاہ ہوا تو آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے۔
قصہ مختصرصاحب ارشد ندیم نامساعد حالات میں جسطرح فائنل تک پہنچا اسکی تعاریف تو بنتی ہے۔ تمغہ نہ سہی نام ہی سہی۔ ارشد ندیم اور طلحہ طالب کی کارکردگی اولمپک کمیٹی کے سربراہ کے لیے لمحہ فکریہ ہیں جو گذشتہ سترہ سالوں سے اولمپک کمیٹی سے چمٹے ہوئے ہیں اور نجانے کونسا فارمولہ ایجاد کررہے ہیں جو نجانے کونسے اولمپک مقابلوں میں پاکستان کو میڈل دلوائے گا۔ ہاکی کا کھیل جس کا تصور پاکستان کے بغیر ناممکن تھا آج جنکو کھیلنا سکھایا ان سے سیکھنا پڑرہا ہے۔ اولمپک مقابلوں اور عالمی کپ کے ہاکی مقابلوں کے لیے پاکستان کو کوالیفائنگ راونڈ کھیلنا پڑتے ہیں جہاں چھوٹی ٹیموں سے شکست وجہ اخراج بن جاتی ہے۔
بہرحال ارشد ندیم کے جیویلن تھروں نے پھر سے ایک امید جگائی ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس مٹی اور اسکے بیٹے اور بیٹیوں کی رگوں میں دوڑتا لہو ابھی بہت گرم ہے۔ بس ارباب اقتدار موقعہ دیں۔ ہاکی، فٹبال، ایتھلیٹکس، اسکواش، باکسنگ اور بہت سے انفرادی اور اجتماعی کھیلوں کے جہانگیر خان، حسین شاہ اور حسن سردار گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ صرف انکو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اٹوٹ انگ ہے، جان حاضر ہے، زندہ باد پاہندہ باد وغیرہ وغیرہ۔۔ صرف ان نعروں سے میڈل نہیں جاتے۔ وطن پرستی صرف سرحدوں پر نہیں کھیل کے میدانوں میں بھی ہوتی ہے۔