Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Zinda Hain Aise Sheher Mein Aur Kamal Kaya Karen

Zinda Hain Aise Sheher Mein Aur Kamal Kaya Karen

زندہ ہیں ایسے شہر میں اور کمال کیا کریں

میں ایک ایسے معاشرے کا فرد ہوں، جہاں امیر کی بکواس بھی غور سے سنی جاتی ہے اور غریب کی چیخ و پُکار پر کان نہیں دھرے جاتے۔ جہاں سٹیٹس سمبل عزت کا استعارہ ہے۔ آئی فون، ویگو، فارچونر و پراڈو کھوکھلے لوگوں کو معتبری کی سند ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اس سوسائٹی سے چڑ ہو چکی ہے۔ میں یہاں جیسے سانس لے رہا ہوں وہ میں ہی جانتا ہوں۔

اس قدر حبس بھرا ماحول ہے کہ سانس لینے کو اپنے اطراف کی آکسیجن خود پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ایک ویڈیو لاگر ہونے کے سبب یا ٹریولر ہونے کے سبب آئی فون رکھنا میرے واسطے کچھ ضروری ہے کچھ مجبوری ہے کہ اس سے بہتر کیمرا رزلٹ مجھے کسی اور سے نہیں مل پاتا۔ یہ سٹیٹس سمبل نہیں میرے کام کی پراڈکٹ ہے۔ میں گاڑی افورڈ کر سکتا ہوں۔ فارچونر یا پراڈو یا ریوو لے سکتا ہوں، مگر نہیں لی اور نہیں لوں گا۔ مجھے اس کلچر کا حصہ نہیں بننا، جس کا ہر وڈیرہ، بدمعاش، سیاسی ایلیٹ، ٹچے کاروباری وغیرہ وغیرہ حصہ ہیں۔ ایک بار چاؤ سے رینج روور امپورٹ کروا لی تھی۔ دو ماہ گزار سکا اور میں بیزار ہوگیا۔ وہ ایک الگ قسم کا سٹیٹس سمبل بن چکی تھی۔ جہاں جاتا ہر بندہ سلام لینے لگتا۔ چوکی پر کھڑا سپاہی بھی ہاتھ کھڑے دیتا۔ میں نے وہ بوجھ گلے سے اتار دیا۔

میں جہاں جاتا ہوں، وہ ایک خاص طبقے کی محافل ہوتیں ہیں۔ دولتمند لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر ہو یا بابو کریسی سے ملنا ہو۔ ڈپلومیٹس ہوں یا حکومتوں کے کرتے دھرتے۔ میں نوکری بھگتا رہا ہوتا ہوں اور یہ دیکھ کر ہنستا رہتا ہوں کہ کیسی کیسی بکواس سننا پڑ رہی ہے۔ انٹلیکٹ دیکھ کر تو خدا بھی دولت نہیں دیتا۔ کیسے کیسے "نگینے" بھری جیب کے ساتھ کیسےکیسے "دانش" کے موتی بکھیرتے ہیں اور بھرا ہوا ہال ان کی کھانسی پر بھی تالیاں پیٹنے لگتا ہے۔

بطور سیاح جب ان بڑے شہروں اور بڑی دعوتوں سے دور پاکستان کو دیکھتا ہوں تو بھوک ہی مر جاتی ہے۔ دشت و کوہ میں بستا انسان سو روپے کی نائلون سے بنی جوتی خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ وہاں لوگ گرم ریت پر ننگے پاؤں چلتے دیکھتا ہوں۔ پانی کی بات ہی کیا کرنی۔ وہ ہو تو کوئی بات بھی کروں۔ پانی کے حصول واسطے میلوں کا سفر زندہ رہنے کی کاوش میں کیا جاتا ہے۔ صحت و تعلیم کا حال کیا لکھنا میں ان واقعات پر لکھنے لگوں تو پوری ایک کتاب کا مضمون ہے۔

پھر نوکری کا کلچر ہے، جس میں کام کرتا ہر پرزہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار بننے کی کوشش میں دل و جان سے لگا رہتا ہے۔ یعنی وہ وسائل جو اس واسطے مختص ہیں کہ عوام الناس کی فلاح واسطے خرچ ہوں، ان کو بچا کر یعنی کاسٹ کٹنگ کرکے اور نتیجتہً عوام کو ایک گھٹیا معیار کی پراڈکٹ دے کر اپنے ادارے کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے " دیکھا اتنے پیسے بچا لئے"۔ یہ بھی دیکھتا رہتا ہوں کہ ایسوں کو ہی شاباش دی جاتی ہے اور ایسوں کو ہی تنخواہ میں سپیشل بونس سے نوازا جاتا ہے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔

عالمی اداروں کے فنڈز میں سے ساٹھ فیصد حصہ مینجمنٹ کاسٹ یعنی عملے کی بھاری تنخواہوں، گاڑیوں کی آمد و رفت میں لگنے والے پٹرول و ڈیزل، اور رہائشی و تفریحی و طعامی سرگرمیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ بیس فیصد حصہ مقامی ٹھیکیدار لے اُڑتے ہیں، جن کو ٹینڈر دیا جاتا ہے۔ بقیہ بیس فیصد میں سے اگر اہل علاقہ کی قسمت اچھی ہو تو دس فیصد گراؤنڈ تک ڈلیور ہو جاتا ہے۔ یعنی ان پر لگ جاتا ہے۔ سرکاری پراجیکٹس یا فنڈز کا حساب ہی نرالا ہے۔ وہ لوٹ کا مال ہوتا ہے اور بس۔ تبھی جب آپ دیکھتے پڑھتے ہیں کہ دس کلومیٹر کی ایک ذیلی سڑک پر لگی تختی پر کُل لاگت پچپن کروڑ لکھی ہے تو نجانے کیوں آپ حیران ہوتے ہیں۔ میں تو نہیں ہوتا۔ شکر ادا کرتا ہوں کہ سڑک جیسی تیسی بن تو گئی اور تارکول کی پتلی تہہ برائے خانہ پُری بچھا تو دی۔ وگرنہ میں نے تو گھوسٹ سکولز، ہوائی قلعے اور غیبی پراجیکٹس بھی دیکھ رکھے ہیں۔ جو کاغذوں میں مکمل اور دھرتی سے غائب ہیں۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر جھوٹ اور نرا جھوٹ، پروپیگنڈا، ٹچا پن، بغیرتی، نیچ حرکات، باندر تماشے، اور رات کو دن کرنے کا دھندا چلتا رہتا ہے۔ منبر پر کفر کے فتویٰ ہیں۔ اہل محلہ اک دوجے کے گریبان تھامے کھڑے ہیں۔ گھروں میں گھریلو منافقت پل رہی ہے۔ خاندان میں حسد پھلتا ہے۔ دوستوں میں کوئی دوست نہیں ہوتا۔ سب بظاہر ایک دوسرے کو فیس ویلیو پر لے رہے ہیں۔ الفاظ وہی ہیں، مگر گودا غائب ہے۔ میز پر گفتگو کے چھلکوں کا انبار ہے۔ روز ساتھ بیٹھنے والوں میں اب یہ لاشعوری احتیاط اور ٹٹول بھی در آئی ہے کہ اللہ جانے پردے کے پیچھے کیا ہے۔ کہیں یہ بھیڑیا تو نہیں، سور تو نہیں، تیندوا تو نہیں، بندر تو نہیں، طوطا، چڑیا تو نہیں۔ ہو سکتا ہے، جسے میں خرگوش سمجھ رہا ہوں دراصل سانپ ہو اور جو کل تک مینا تھی آج وہی مینا دراصل بچھو ہو۔

ادبی و ثقافتی پروگراموں کے نام پر گھٹیا حرکات بھی جاری ہیں۔ لوگ لطیفے سناتے بھی ہیں، ان پر ہنستے بھی ہیں اور موبائل فون کے سیلفیانہ بخار میں بھی باقی دنیا کی طرح مبتلا ہیں۔ کرپشن کو ہنس کے ایسے ہی ٹالا جاتا ہے جیسے نائجیریا، کانگو اور سوڈان وغیرہ میں۔ یہاں قوانین اور ان پر عمل درآمد اتنا ہی مضحکہ خیز ہے، جتنا کسی بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔

بھکاری سے لے کر صنعت کار تک سب ہی کل کی طرح روتے بھی جاتے ہیں، کماتے بھی جاتے ہیں۔ حسد، کینہ، بغض، شیطانیت، انسانیت، خواتین کا احترام و بے حرمتی، بچوں کی پرورش و عدم پرورش سب کچھ وہی ہے۔ جو کسی بھی فوجی و سویلین، دائیں یا بائیں کے دور میں ہوتا ہے۔ پھر بھی کچھ ہے جو پاکستانی سماج سے چھن گیا ہے۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ کیا چھن گیا ہے۔ مگر ہاں لوگ اب خالص سچ بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ دل کھول کے سامنے نہیں رکھتے بلکہ سامنے والے کا ذہنی ناپ لے کر ایسا باتونی لباس سیتے ہیں۔ جو سننے والے کو تنگ محسوس نہ ہو۔ سب پرتپاک ہیں لیکن کسی کو کسی پر یقین نہیں کہ کس کے ڈانڈے کہاں پر مل رہے ہیں۔ میرے منہ سے نکلی بات کا دوسرا کیا مطلب لے گا اور اس پر کیا ردِعمل دے گا۔ یہ ردِعمل فوری ہوگا یا بعد میں کسی اور شکل میں سامنے آئے گا۔

ہاں یہی سماج تھا، جہاں کبھی ننگی آمرانہ فضا میں بھی کوئی بات کہتے ہوئے دائیں بائیں نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ حساس ترین مذہبی و غیر مذہبی معاملات پر دوستوں سے الجھتے ہوئے بھی کوئی اندر سے لگامیں نہیں کھینچتا تھا۔ رک جا، ابے رک جا، پاگل ہوگیا ہے کیا، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ہوا تیز چل رہی ہے، مگر سانس رک رہی ہے۔ بظاہر کوئی کسی پر نگراں نہیں مگر ہر کوئی اپنا ہی ہمہ وقت نگراں ہے۔ سب آزاد گھوم رہے ہیں۔ مگر اپنی سوچ اور روح اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ صرف اس لالچ میں کہ اس جیسی کیسی زندگی کے چند دن اور میسر آ جائیں کہ جس زندگی سے ہر کوئی تنگ ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر میں بہت کچھ دیکھ، سُن اور پرکھ رہا ہوتا ہوں۔ بہت کچھ اگنور کرکے لائٹ موڈ میں رہنے اور جینے کا فن بھی سیکھ چکا ہوں۔ پھر بھی یہ معاشرہ ایسا ظالم ہے کہ کبھی کبھی سانس بھی چھیننے لگتا ہے۔ تب میرا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور میں چیخنے لگتا ہوں۔ صبر کا پیمانہ چھلکتا ہے تو مزاج اور تحریر میں بھی تلخی آ جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میں دعا گو رہتا ہوں کہ میں نہیں تو میری اگلی نسل اس عذاب سے نکل پائے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (1)

By Zia Ur Rehman