Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. You Can Cross The River Once

You Can Cross The River Once

یو کین کراس دا رور ونس

میاں برادران کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی کہ گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلو اور ہر ممکن طریقے سے اقتدار حاصل کرو۔ بڑے میاں صاحب تین بار جرنیلوں کے ہاتھوں ڈنڈا ڈولی ہو کر نکلے تو چھوٹے میاں رات کے اندھیروں میں جرنیلوں کے گوڈوں میں جا بیٹھتے۔ آج بھی وہی کھیل ہے۔ چھوٹے میاں سے ان کی پارٹی کے کارکنان بھی مطمئن نہیں اور بڑے میاں کو نجات دہندہ بتانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بہرحال، یہاں دو بھائی تھے اور دونوں نے مل کر اپنے مفاد میں اچھا کھیلا۔

زرداری صاحب پر یہ افتاد آن پڑی کہ بینظیر کے بعد اگر اُٹھنے کی کوشش کرتے تو پارٹی سب جاتی رہتی۔ انہوں نے چپ کرکے پاور پالیٹیکس کو اپنا منشور بنایا اور اچھے سے پانچ سال بطور صدر ہر بات مان کر پورے کئیے۔ اب جا کر بیٹا جوان ہوا تو ان کو بھی ایک ایج مل گیا۔ بلاول سے گاہے گاہے وہ باتیں کہلواتے رہو کہ لوگ سمجھیں یہ اندر سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ لگتا ہے اور خود انہی کے ساتھ ڈیلیں کرکے کسی نہ کسی طرح پاور کوریڈور کا حصہ بنے رہو۔

عمران خان صاحب کی یہ مجبوری ہے کہ وہ تن تنہا ہیں اور اپنے علاوہ وہ کسی کو خاطر میں لاتے بھی نہیں۔ جس شخص کی وہ سب سے زیادہ سُنتے ہیں وہ آئینے میں کھڑا شخص ہوتا ہے۔ چونکہ وہ گڈ کاپ بیڈ کاپ اس طرز پر کھیلنے سے بوجوہ مجبور تھے اس لیے انہوں نے دن میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیئہ بنانے پر توجہ دی اور بیک ڈور وہ مذاکرات کے واسطے اپنے نمائندے جی ایچ کیو بھیجتے رہے۔ ڈیل بہتر لینے کو انہوں نے سوچا کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا چاہئیے لہذا وہ اپنا دباؤ یہ سوچے بنا بڑھاتے چلے گئے کہ ہر ایک کا تھریش ہولڈ ہوتا ہے۔ اس تھریش ہولڈ کو پار نہیں کرنا چاہئیے۔ جیسے ہی وہ تھریش ہولڈ ٹوٹا اگلوں نے طاقت استعمال کرکے پارٹی توڑ دی اور آج جب عمران خان کہتے ہیں کہ مجھ سے بات کرو، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تو اگلے ان کو ان کا ہی دہرایا قول یاد کرواتے ہیں

You can cross the river once

المیہ ہماری سیاست کا دراصل آپ سب کو معلوم ہو چکا ہے۔ پاور کوریڈر کا مرکزی دروازہ اسٹیبلشمنٹ سے ہو کر کھُلتا ہے۔ آج تلک اس ملک میں بنا ایڈوانس منظوری یا ڈیل کے کوئی مائی کا لعل وزیراعظم نہیں آ سکا ماسوائے بھٹو کے جس کی عوامی سپورٹ کا اندازہ لگانے میں وہ چُوک گئے تھے مگر انہوں نے اسلامی اتحاد بنا کر بھٹو کو ناکوں چنے بھی چبوا دئیے تھے اور بلآخر جو اس کا انجام ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔

سمسیا یہ ہے کہ سرِ دست جو دستیاب ہے وہ یہی مال ہے جو قومی سطح پر سیاسی وجود رکھتا ہے۔ یہ مال ایک سا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان کا مسئلہ یہ ہوگیا کہ انہوں نے اپنے قائد کو معصوم عن الخطا مان لیا اور اس پر سوال کرنے یا بات کرنے کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں جن میں اول ہمارے کرتے دھرتوں کی شبانہ روز محنت شامل ہے۔ انہوں نے نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔ ایسی ذہن سازی کی گئی کہ آکسفورڈ کا پڑھا، مذہبی رجحانات والا، قائداعظم سے مشابہ، نماز پڑھتے کی تصاویر، موری والے کرتے کی تصاویر، لائف سٹائل کی نمائش اور سب سے بڑھ کر چور ڈکیت چور ڈکیت کی گردان کہ سب ڈکیت ہیں میں اکیلا بہترین ہوں۔ ایک پوری نسل یہ دیکھتے بالغ ہوئی ہے جو اب یہ ایمان رکھتی ہے کہ عمران خان کے بعد بس قیامت ہے۔ وہ نہیں تو یہ ملک بھی نہیں اور کچھ بھی نہیں۔

تحریک انصاف کے قائد اور کارکنان آج جو کچھ بھگت رہے ہیں اس میں نوے فیصد ان کی بنا سوچے بنا تولے بدزبانی کا عمل دخل ہے۔ قائد کی جانب سے اوئے توئے کا کلام اور کارکنان کی جانب سے منہ کی بواسیر جو اب ان کے ہی سامنے آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ ادلے کا بدلہ ان کو مل رہا ہے۔

سوچنا یہ ہے کہ یہاں سے وے فاروڈ کیا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ساؤتھ افریقہ کی طرح منڈیلا کے آنے پر "ٹروتھ اینڈ ری کنسلیئشن" کمیشن وجود میں آئے۔ یہ سب اپنے اعمال پر نظر ثانی فرمائیں اور نئے عہد کے ساتھ آگے چلیں۔ یا کیا ایسا ممکن ہے کہ نئی قیادت جنم لے؟ میرے خیال میں دونوں ممکن نہیں۔ وہ کیا شعر یاد آ گیا

ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب کونسے دھاگے کو جدا کس سے کریں

اگر تو ان سب نے ایسے ہی چلنا ہے اور اسٹیبشلمنٹ سے ڈیل و ڈھیل پر ہی تکیہ رکھنا ہے تو جہاں ہم پچھہتر سال میں پہنچے ہیں مزید سہنے کا حوصلہ ملک میں نہیں رہا۔ خدا کسی قوم کو محبوب نہیں رکھتا۔ جغرافیئے بدل جاتے ہیں۔ نقشے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے پاس مہلت نہیں رہی۔ کرتے دھرتوں کے پاس ہمت نہیں رہی۔ عوامی دل ان سے باغی ہو چکے ہیں۔ اور یہ بند گلی کا سفر ہے۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar