Waqt Rehta Nahi Kahin Tik Kar
وقت رہتا نہیں کہیں ٹِک کر
جہاں میں کھڑا ہوں اس وقت سورج ایک خاص زاویے پر ہے اور ابھی پلکوں کی چلمنیں نہیں گریں۔ دور نیلاہٹ مائل چوٹیوں پر جمی ہوئی برف پگھل کر جھرنے کی صورت بہہ رہی ہے۔ کئی ٹھٹھری ہوئی کرنیں گھروندوں کے روزنوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ چولہوں کی آگ سے خود کو گرما سکیں۔ قطب جنوبی میں یہ موسمِ سرما ہے۔ سامنے حدِ نگاہ تک کھُلا بحرالکاہل ہے۔ میں ایک بلند مقام پر کہ جس کے سامنے گہری کھائی ہے ٹکٹکی باندھے دوسری جانب ہری گھاس سے بھری پہاڑی ڈھلوانوں پر پھیلتے سایوں کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ عظیم سمندر کا کنارا ہے۔ سردی کی شدت میں شام ڈھلے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
دو دن قبل میں نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ کے ہوائی اڈے پر اُترا تھا۔ یہاں آباد میرا ایک دوست رضوان مجھے لینے آیا اور پھر گھر پہنچ کر بھابھی کے ہاتھ کا کھانا نصیب ہوا۔ کیا لذیذ پکوان تھے۔ بھابھی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے ساتھ شاید کُکنگ میں بھی ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ وقتِ رخصت انہوں نے پائے، بریانی، چکن روسٹ پیسز اور قیمے کی ٹکیاں ڈبوں میں پیک کرکے ہمراہ کر دیں۔ اگلے روز میں نے آکلینڈ کو چھوڑا اور کیپ رینگا کی جانب طویل سفر پر روانہ ہوگیا۔ سارا دن مسلسل گاڑی چلاتے ساؤتھ کا آخری مقام کیپ رینگا کا لائٹ ہاؤس میرے سامنے تھا۔
کچھ دیر قبل میں اس لائٹ ہاؤس کے اطراف ڈرون اڑا رہا تھا۔ جگہ سنسان تھی۔ اکا دکا مقامی سیاح تھے۔ ہوا شدت سے بہہ رہی تھی۔ سردی کے سبب میرا بدن کانپ رہا تھا اور پھر ڈرون تیز ہواؤں کا شکار ہوگیا۔ وہ کہیں گھاٹیوں میں اُتر گیا تھا۔ میری سکرین پر "سٹرانگ وِنڈ وارننگ" مسلسل آنے لگی۔ ڈرون آپریٹ ہونا بند ہوگیا۔ نہ تو کنٹرولز سے اوپر اُٹھ رہا تھا نہ کسی سمت کو بڑھ رہا تھا بس ایک جگہ ساکت تھا۔
بیٹری سردی کے سبب فوری ڈرین ہوئی جا رہی تھی۔ دراصل اس کا آٹومیٹک بچاؤ موڈ ایکٹو ہو چکا تھا۔ میرا لاکھوں کا قیمتی ڈرون نجانے کہاں ہَوا سے بچنے کو گھاٹیوں میں معلق تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے میرے لاکھوں روپے ہوا میں معلق ہیں۔ فکر ڈیٹا کی ستا رہی تھی کہ ڈرون کے ہمراہ اس میں ریکارڈ شدہ ڈیٹا نہ کھو جائے۔ پریشانی میں بھوک بڑھ گئی تھی۔ سردی کے سبب ایک جگہ ٹکے رہنا مشکل ہوا جاتا تھا اور پھر ہوا لحظہ بھر کو مدھم پڑی۔ ڈرون خود سے اڑا اور واپس آنے لگا۔
میں نے شکر ادا کرتے ہوئے اسے پیک کیا اور سارا سامان سمیٹ کر گاڑی کی جانب چل دیا۔ گاڑی میں رکھے ڈبے کھولے۔ ٹھنڈا روسٹ اور قیمے کی دو ٹکیاں کھا گیا۔ اس سے لذیذ اس سمے کچھ نہیں لگ رہا تھا۔ بدن کو کچھ حرارت ملی، کچھ جسم کو کھانے سے توانائی ملی تو پھر سے باہر نکل آیا۔ اب میں جہاں کھڑا تھا وہاں سامنے لائٹ ہاؤس تھا اور اس کے عقب میں کھُلا سمندر۔ پھر میں آنکھیں میچ کر گزشتہ زمانوں کی دیوار گریہ سے سر ٹکراتا ہوں تاکہ دُھوپ کی کومل حدت میں دماغ پر جمی برف پگھل جائے۔
اب تک عمر کے سفر میں کیسے کیسے مواقع ملے تھے جو میں"ویل لیفٹ" کر گیا تھا۔ ایک ماہ قبل آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں شہزاد صاحب ملے۔ وہ آسٹریلوی حکومت کے سوشل ویلفئیر ادارے کے آفیسر تھے۔ انہوں نے مجھے سسٹم کے لوپ ہول بتاتے اس بات پر زور دیا کہ میں یہیں قیام کر لوں اور ملک واپس نہ جاؤں۔ مجھے یوں یوں ریزیڈینسی مل سکتی ہے اور یوں یوں انکم سپورٹ بھی مل سکتی ہے۔ میں سُن کر ہنس دیتا اور ان کا شکریہ ادا کر دیتا۔
سنہ 2015 میں اٹلی کے شہر روم میں منعقدہ رائٹرز کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں روم کی ایک رائیٹر خاتون سے علیک سلیک اسی کانفرنس میں ہوئی جو بعد ازاں دوستی میں بدل گئی۔ ہیلنا نے میری بہت سماجت کی کہ میں واپس نہ جاؤں وہ مجھے اٹلی میں ہر طرح کی سپورٹ دے گی اور میں یہاں سیٹل ہو سکتا ہوں۔ میں ہیلنا کو ہنس کے دیکھتا اور کہتا "تمہارا شکریہ مگر تم سمجھ نہیں رہی کہ میں اپنے سہارے کھڑا رہتا ہوں۔ اگر میں خود پر یقین کھو دوں گا تو ناکام رہوں گا۔ یہ شارٹ کٹس انسان سے اس کا بے ساختہ پن چھین لیتے ہیں۔ " ہیلنا آج بھی دوست ہے اور میرے فیصلے پر خوش ہے۔
سنہ 2012 میں نیشنل جیوگرافک میگزین نے پاکستان کی وادی غذر کے گلاغمولی گاؤں میں واقع ایک سکول کی میری تصویر اپنے شمارے میں شائع کی۔ اس کے بعد مجھے یونیورسٹی آف ہلسینکی فن لیند سے ویژیول آرٹس میں ماسٹرز کے لیے دو سالہ فل فنڈڈ سکالرشپ آفر ہوئی۔ یہ دور میری پہلی بیگم کا تھا۔ اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکی تھی۔ میں نے اسے بتایا تو اس نے مجھے طعنہ دیا کہ میں اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنا چاہ رہا ہوں اس لیے جانا چاہتا ہوں۔ خیر، گھریلو چک چک سے بچنے کو میں نے وہ آفر ٹھکرا دی۔
دُنیا بہت وسیع ہے مگر کبھی کبھی لگتا ہے دنیا بہت چھوٹی ہے۔ سنہ 2016 میں میرے ازدواجی تعلق کا اختتام ہوا۔ یہ سال میرے واسطے ڈپریشن کا سال رہا۔ دو طرفہ محبت کی شادی دس سال دونوں کی جانب سے گھسیٹتے گھسیٹتے اختتام کو پہنچی۔ دو سال قبل میں اپنی موجودہ بیگم کے ہمراہ لاہور کے مال میں شاپنگ کر رہا تھا کہ اچانک میری سابقہ بیگم ٹرالی لیے سامنے آ گئی۔
بیگم چونکہ اس کو تصویروں کے سبب پہچانتی تھی اس لیے اس نے پہچان لیا۔ ہمارے چونکہ دس سال ایک چھت تلے گزرے تھے اس لیے جب وہ عین سامنے آ گئی تو میں نے سلام کر لیا اور حال پوچھا۔ اس نے سلام کا جواب دیا، میری بیگم کی جانب دیکھا اور چل دی۔ ہم دونوں بھی چل دئیے۔ بیگم نے کچھ فاصلے پر جا کر مجھے کہا "اس نے آپ کو سلام نہیں کیا تھا۔ آپ کیوں اسے خود سے سلام کر رہے تھے؟" میں نے اسے ہنس کے گلزار کا شعر سنایا
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے۔
اور پھر کہا "دیکھو بیگم۔ وہ مجھ سے ویسے بھی عمر میں تین سال بڑی ہے۔ لمبا عرصہ ساتھ گزار چکے ہیں اور تم جانتی ہو یہ شادی سماج سے لڑ کر دونوں نے پسند سے کی تھی۔ تم یہ سمجھ لو کہ میں نے عمر میں چھوٹا ہونے کے ناطے پہل کر دی ورنہ شاید وہ بھی سلام کر ہی لیتی"۔
ماضی کی دیوارِ گریہ سے دھیان ٹوٹا تو سامنے ایک ننھا بچہ اپنی ماں کے ہمراہ کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔ شام ڈھل چلی تھی۔ اکا دکا سیاحوں کی بھی واپسی ہو رہی تھی۔ وقت بِیت گیا تھا۔ قطب جنوبی کی آخری زمین سے وداع ہونا تھا۔ یہ وقت بعد میں یادوں کا اثاثہ بن جاتا ہے۔ یہ دن مجھے لمبا عرصہ یاد رہے گا۔ وقت یہ بھی گزر جائے گا اور وقت وہ بھی گزر چکا ہے جب تعلق کے بوجھ ڈھوتے کاوشِ روزگار کی پریشانیاں لیے پھرتا تھا۔ ایک دن سرمایائے تن بھی ٹھکانے لگنا ہے۔ ہاں، مگر میں خوش ہوں کہ میرے بدن نے زمانے کی بہت دھول سمیٹی ہے۔ یہی زندگی ہے جو جامد نہیں ہوتی۔ سفر ہوتا رہتا ہے۔ وقت آگے بڑھ جاتا ہے۔
وقت رہتا نہیں کہیں ٹِک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے۔