Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Waqia Karbala Aur Iske Aftershocks

Waqia Karbala Aur Iske Aftershocks

واقعہ کربلا اور اس کے آفر شاکس

حسینیت دراصل لیفٹ کی تحریک ہے۔ یعنی طاغوت کے مقابل میں قیام۔ جبر کے مقابل میں کلمہ حق۔ استعمار کے مقابل صف بندی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی مسلم یا غیر مسلم واقعہ کربلا کو پڑھ کر اور اس کے روٹ کاز کو دیکھ کر یزید کا طرفدار ہو۔ مذہب اور مقدسات کو نکال کر دیکھا جائے تو یہ حسینیت بائیں بازو کی تحریک کا نام ہے۔ یہ صرف مذہبی طبقے کے اندر ہی مٹھی بھر ایسا طبقہ ہے جو یزید کے دفاع میں الٹا لٹک جاتا ہے۔

سانحہ کوئی بھی ہو اس کے آفٹر شاکس ہوتے ہیں۔ امت مسلمہ میں چونکہ یہ سانحہ ایک عظیم ٹریجڈی تھی اس لیے اس کے آفٹر شاکس گہرے تھے۔ اسی سبب امت واضح طور پر دو بنیادی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ میں یہاں پبلک فورم پر nitty gritty میں نہیں جاؤں گا۔ چھاننا ہو تو چھاننی ہی کام آوے ہے۔ کربلا میں جو کچھ ہوا قطعہ نظر اس کے کہ کس کے ساتھ ہوا اور وہ کون تھا، وہ سراسر ظلم تھا اور ظالم کی مذمت کرنا دین اسلام بھی ہے اور انسانیت بھی ہے۔ عقل سے پیدل ہیں وہ لوگ جو اس ظلم پر ظالم کی طرفداری کرنے لگتے ہیں۔ شاید ایسی نسل انسانوں کے مابین ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے جو ظالم کی طرفدار رہا کرتی ہے۔ اگر نہ ہو تو دنیا میں ظلم ہی کیوں ہو؟

بنو امیہ نے کربلا کی جنگ میں خانوادہ رسول کو تہہ تیغ کرکے اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنا چاہیں۔ حاکم شام یزید ابن معاویہ بخوبی سمجھتا تھا کہ اگر سارا جگ بھی بیعت کر لے تو جب تک مدینے میں بستی تین ہستیاں اس کی بیعت نہیں کریں گی اس کی حکومت کو دوام حاصل نہیں ہو سکتا اور کل کو شورش و بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں۔ اس نے گورنر مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان (ابو سفیان کے پوتے) کے نام خط لکھا اور ان تینوں سے بیعت کا مطالبہ کیا بصورت دیگر ان کو قتل کرنے کا فرمان جاری کیا۔

یہ تین اشخاص حسین ابن علی، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر تھے۔ ان تینوں کو باری باری دربار میں طلب کیا گیا۔ عبداللہ ابن عمر کا فرمانا تھا کہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں لہذا باقی کی زندگی گوشہ نشینی میں گزار رہا ہوں سو مجھ سے یزید کو کس بات کا ڈر؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ یہ بوڑھا جس کی زندگی کا بھروسہ نہیں وہ لشکر کشی کرنے پر قدرت رکھتا ہے؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے تا کہ میں زندگی کے دن اپنے حجرے میں گوشہ نشین ہو کر بسر کر سکوں۔

گورنر مدینہ نے خلیفہ دوئم ؓہ کے فرزند عبداللہ ابن عمر کی ان کے والد کی تکریم میں جان بخشی کی اور وہ باقی زندگی مدینے میں گوشہ نشین رہے۔

عبداللہ ابن زبیر کو اس حکم نامے کی خبر دربار میں موجود ان کے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ پہنچ چکی تھی۔ ابن زبیر نے حسین ابن علی کے پاس جا کر یہ ماجرا سنایا اور مشورہ مطلب کیا۔ حسین ابن علی نے ابن زبیر سے فرمایا کہ تم جان بچا کر روپوش ہو جاو ورنہ قتل کر دیئے جاو گے چنانچہ ابن زبیر رات کی تاریکی میں مدینے سے نکلے اور مکہ جا کر کعبے میں اس لئے پناہ لے لی کہ مکے میں ابن زبیر کے خاندان والے وافر موجود تھے۔ مکہ پہنچ کر ابن زبیر نے اپنے دفاع کے لئے لشکر بنایا اور کعبہ میں پناہ لے لی کہ کعبہ پر کوئی مسلمان لشکرکشی کی ہمت نہیں کرے گا۔

واقعہ کربلا کے بعد یزید تین سال زندہ رہا مگر اس کے ہوتے ہی ملک کے طول و عرض میں شورش پھیلنے لگی۔ جوں جوں قتل حسین کی خبر عرب کے صحراوں میں پھیلتی گئی توں توں لوگ غم و غصہ دکھاتے جتھے بنا کر خروج کرنے لگے۔ اہلیان مدینہ نے یزید کی بیعت توڑتے ہوئے بغاوت کر دی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیئے یزید نے اپنی فوج کو مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کرنے کے احکامات دیئے جس کو واقعہ حرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 27 ہزار نفوس پرمشتمل یزیدی فوج نے مدینہ کی حرمت کو پامال کر ڈالا۔ مدینہ میں اصحاب اور ان کے خاندان کا قتل کیا گیا۔ اصحاب زادیوں سے گستاخیاں کی گئیں۔ روضہ رسول پر شامی فوج نے اپنے گھوڑے باندھے اور اسے اصطبل بنا ڈالا۔ مسجد نبوی میں تین روز تک آذان و نماز معطل رہی۔ آپ واقعہ حرہ کو پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں لگ بھگ 700 اصحاب رسول کا قتل کیا گیا اور مجموعی طور پر ہزاروں افراد کا خون بہایا گیا۔

مدینے سے فارغ ہو کر یزیدی فوج نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے واسطے مکہ کی راہ لی۔ ابن زبیر حرم میں پناہ لئے بیٹھے تھے اور اپنے خاندان و اصحاب کے ساتھ اپنے دفاع میں لشکر بنائے موجود تھے۔ 64 روز تک کعبہ کا محاصرہ کیا گیا۔ بلآخر کعبہ پر منجیقوں سے سنگ باری کی گئی۔ کعبہ کے غلاف کو آتشزدگی سے آگ لگی۔ آگ اتنی شدید تھی کہ کعبہ کی دیواریں سیاہ ہوگئیں۔ اسی حملے کے دوران اطلاع آئی کہ دمشق میں یزید کا انتقال ہوگیا ہے۔ ابن زبیر نے اعلان کیا کہ اب تمہارا آقا تو مر گیا اب کیوں کعبہ کی حرمت پامال کرکے مزید ظلم کرتے ہو؟ فوج واپس دمشق کو روانہ ہوگئی۔ ابن زبیر نے مکہ میں اپنی گورنری کا اعلان کرتے ہوئے اپنی حکومت بنا لی۔

یزید کا بیٹا معاویہ ابن یزید(معاویہ ثانی) تخت پر بیٹھا۔ اس نے لگ بھگ 40 روز تک حکومت کی اور پھر تمام خاندان و وزیر و مشیر کو جمع کرکے اس نے تخت چھوڑنے کا اعلان کیا اور اپنی ماں کے ساتھ گوشہ نشین ہوگیا۔ بعض روایات کے مطابق تخت چھوڑنے کے چند روز بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کا فرمانا تھا "مجھے اپنے باپ کا وہ تخت نہیں چاہیئے جس سے خون حسین کی بو آتی ہو"۔ اس کے بعد بنو امیہ کا حاکم مروان بنا۔ مروان کے دور میں کئی فتنے اٹھے۔ حجاج بن یوسف بنو امیہ کا ہی حاکم تھا۔ اس نے خانہ کعبہ پر چڑھائی کرنے کے ساتھ تابع تابعین کا قتل عام بھی کیا۔ تاریخ اس کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔

وقت کے ساتھ عباسیوں نے لوگوں کو قتل حسین کا بدلہ لینے کے لیئے جمع کرنا شروع کیا۔ عباسی رسول پاک کے چچا حضرت عباس کے بیٹے عبداللہ ابن عباس کی نسل سے تھے۔ انہوں نے کالے پرچموں کے ساتھ "یا الثارث الحسین" کا نعرہ بلند کیا۔ لاکھوں کی فوج اس بنا پر جمع کی کہ خاندان رسول کے ناحق قتل کا بدلہ بنو امیہ سے لینا ہے۔ ابو العباس السفاح نے مروان ثانی کو شکست دے کر بنو امیہ کا تختہ الٹ دیا۔ عباسی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے امویوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا یہاں تک کہ بنو امیہ کی قبریں کھودیں گئیں اور لاشوں کو نکال کر پامال کیا گیا۔ لاشوں کو جلا دیا گیا۔

تاریخ طبری حصہ چہارم صفحہ 333 تا 647

تاریخ ابن کثیر جلد ہشتم صفحہ 287 تا آگے

Check Also

Mujaddid Alf Sani

By Zubair Hafeez