Technology, Viral Content Aur Hum
ٹیکنالوجی، وائرل کانٹینٹ اور ہم
ٹیکنالوجی عام ہونے کے فوائد بہت ہوئے تو نقصان بھی کم نہیں ہوا۔ ہر شخص کے ہاتھ انٹرنیٹ اور ٹچ سکرین موبائل ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ اس احساس سے محروم ہے کہ سوشل میڈیا پر اخلاقیات، روئیوں اور لسانیات کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ مزاق کس حد تک مزاق ہے اور کہاں سے وہ اگلے کی انسلٹ بننے لگتا ہے۔ کمنٹیٹری زبان تعلق سنوارتی بھی ہے تو بگاڑتی بھی ہے۔ عامیانہ تعلیم پی کر پلا ہوا شخص یا تعلیم سے دور شخص بھی آج اپنی بات کے اظہار میں آزاد ہے اور ایسا آزاد کہ مادر پدر گالیاں نوازنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔
سیاست ہے تو اوئے توئے کا میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ منبر ہے تو وہاں سے نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ دفتر میں باس بدزبانی کر رہا ہے۔ گھر میں مرد عورت کی ہاتھوں یا عورت مرد کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار ہے۔ بازار میں مہنگائی مار رہی ہے۔ بے روزگاری غصے میں بدلی جاتی ہے۔ ایسے میں لوگ پناہ حاصل کرنے کو اپنی پانچ انچ سکرین کو راہ نجات سمجھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کمنٹیری کرکے سکون حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو انسان جھیل رہا ہے وہی اُگلے گا ناں سو ہر طرف بیہودگی کا سماں ہے۔
آپ ہمارا وائرل کانٹینٹ ملاحظہ کر لیجئے آپ کو سماج کے بون میرو کا اندازہ ہو جائے گا۔ جو جتنا بدزبان ہے، بے پر کی چھوڑنے والا ہے، لفنگا ٹُچا ہے، منہ کی بواسیر کا شکار ہے، ہانکنے والا ہے وہ اتنا ہی وائرل ہے اور اسے انٹرٹینمنٹ سمجھا جا رہا ہے۔ فیسبک کی فیڈ میں ایسے ایسے سیاسی، مذہبی ٹچ والے، ادب کے نام پر بے ادب پوسٹس نظر آتے ہیں کہ خون کھولنے لگتا ہے مگر اس پر رائے دیتے لوگوں کی تعداد دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے سماج کس جانب رواں ہے۔ ان سب روئیوں کی جڑ وہ بھڑاس ہے جو ہمارا لو مڈل کلاس طبقہ سہہ رہا ہے اور وہی پھر آگے منتقل کر رہا ہے۔ معاشرہ بے حسی کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ احساسِ زیاں جاتا رہا ہے۔ تو تو میں میں، بیہودہ مزاق، بے ہنگم بے تُکے کمنٹس اور پھر سو گئے۔ اگلی صبح نیا دن اور وہی کنوئیں کی روٹین۔
جس طرح ٹھوس ایک خاص درجہِ حرارت پر مائع اور پھر مائع ایک خاص درجہِ حرارت پر گیس میں تبدیل ہو جاتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کو کئی برس سے لگاتار اپنے متعلق اہلِ محلہ سے بس برائیاں سننے کو ملیں تو وہ خود احتسابی پر غور کرنے کے بجائے کچھ عرصے توغصے میں کھولتا رہتا ہے۔ چند ماہ بعد یہ غصہ جھنجھلاہٹ میں بدل جاتا ہے اور رفتہ رفتہ جھنجھلاہٹ بے حسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ کیفیت کسی بھی فرد، سماج یا ادارے پر طاری ہو سکتی ہے۔