Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. SOS Village

SOS Village

ایس او ایس ویلج

سن 2012 کی عید الفطر کا تیسرا دن تھا۔ میں SOS ویلج کے بچوں کی ایک "فن ڈے" یا عید ملن کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے گیا۔ انتظامیہ نے بچوں کے لئے دیگر ایکٹی وٹیز کے ساتھ فوٹوگرافی کا مقابلہ ارینج کیا ہوا تھا جس کو مجھے جج بھی کرنا تھا، دوسرا میں اس لئے گیا کہ ان یتیم مسکین بچوں میں ایک دن گزار کر انہیں فوٹوگرافی کی طرف راغب کروں تو شاید یہ خوش ہو جائیں۔ ایس او ایس ویلج ایسا ادارہ ہے جو لاوارث یتیم و مسکین بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ دن مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ کیسے وہ بچے خوشی سے مزاق کرتے رہے اور مجھ سے معصوم سوال پوچھتے رہے۔

مجھے ایس او ایس ویلج کا وه بچہ یاد آ رہا ہے جس نے سوالات کرکے مجھے لاجواب کر دیا تھا۔ ایک بچے نے سوال کر دیا " انکل آپ کدھر رہتے ہیں؟" میں نے جواب دیا کہ اپنے گھر سیالکوٹ میں۔ اس نے پوچھا "آپ کا گھر آپ نے خود بنایا؟" میں نے مسکراتے کہہ دیا کہ نہیں بیٹا میرے بابا نے بنایا تھا اب میں رہتا ہوں۔ یہ سن کر وہ معصوم بچہ بولا "تو ہمارے پاپا نے ہمارے لئے گھر کیوں نہیں بنایا؟" اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آیا جو قریب ہی کھڑی تھی وہ آگے بڑھی اور بچوں کو لے گئی۔ واپسی کے راستے پر اس بچے کا فقره میرے ذہن میں گونجتا رہا۔ آنکھ کی نمی کناروں سے بہہ نکلی۔

سن 2013 کے پہلے مہینے کی بات ہے۔ سیالکوٹ میں ایک بڑا اچھا سکول سسٹم ہے، کلاسک سکول سسٹم۔ انہوں نے مڈل سے میٹرک تک کے بچوں میں فوٹوگرافی کا مقابلہ کروایا۔ مجھے سکول والوں نے مدعو کیا کہ آپ جج کریں کس کا کام اچھا ہے، پھر اس کو انعام دیا جائے گا۔ وہاں پہنچا، سکول بچوں سمیت ان کے ماں باپ، بہن بھائیوں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا۔ مقابلے میں شامل ہونے والی ساری تصاویر چھ بورڈز پر پن سے لگی ہوئیں تھیں۔

میں تصویریں دیکھنے لگ گیا، حیرت تو یہ دیکھ کر ہوئی کہ چار تصاویر میری اپنی ہی وہاں لگی ہوئی تھیں جن کے نیچے سٹوڈنٹس کے نام بمعہ ان کی کلاس کے چسپاں تھے۔ یہ چاروں ہیڈ مرالہ سیالکوٹ کی تصاویر تھیں۔ میں حیرانی سے ان کے سامنے کھڑا یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ کون "ہنر مند" طالبعلم ہیں۔ دیکھتے دیکھتے ایک سٹوڈنٹ کے والد صاحب میرے پاس کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے "جناب یہ جن تصویروں کو آپ اتنے غور سے دیکھ کر ہنس رہے ہیں، یہ میرے بیٹے نے لی ہیں۔

میں خود اس کو ساتھ لے کر ہیڈ مرالہ وغیرہ کی طرف جاتا ہوں۔ اچھی ہیں ناں؟" میں نے ان صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھا جن کی خضاب میں رنگی داڑھی پیٹ تک آ رہی تھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار کے نیچے چمڑے کے بوٹ پہنے میرے سامنے کھڑے تھے۔ یہ دیکھتے ہی میں مزید ہنس پڑا تو فرمانے لگے "کیمرا ذرا چنگا نئیں سی، ایس واسطے رزلٹ چنگا نہیں آیا، ھُن میں اپنے پُتر نوں چنگا کیمرا لے کے داں گا"۔

میں نے سوچا ان صاحب کا اب شغل ہی لگایا جائے۔ انہیں کہا "جی ضرور لے کر دیں اور ساتھ بھی جایا کریں۔ اسی طرح ایک دن وہ بہت اچھا فوٹوگرافر بن سکتا ہے"، وہ صاحب باچھیاں پھیلاتے ہوئے کہنے لگے "بچہ میرا بڑا ٹیلینٹڈ ہے، اول یا دوم آتا ہے ہمیشہ"۔ یہ سن کر مجھ سے رہا نہیں گیا، میں نے کہا "محترم یہ مقابلہ بھی وہ جیت جاتا اگر اس نے واقعی خود شوٹ کیا ہوتا۔ یہ میری تصاویر ہیں اور آپ نے انٹرنیٹ سے کاپی کرکے پرنٹ کروا لی ہیں اور میرے سامنے ہی آپ بولتے جا رہے ہیں۔ مجھے تو آپ کی باتوں پر ہنسی آ رہی تھی۔ "

ایک دم صاحب کو جھٹکا لگا۔ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کھسیانا سا ہنسے اور کہنے لگے "اچھا اچھا تُسی فوٹوگرافر ہو۔ ماشااللہ چنگا کم کردے او۔ اے بس غلطی ہوگئی۔ تُسی کرو اپنا کم، بعد وچ تواڈے نال گپ شپ کراں گے، مینوں بڑا شوق اے تصویراں کھچن دا۔ میں سارے علاقے پھریاں، اے سوات ہوگیا، چترال، ساری جگہ پھریاں"۔ حضرت بے تکی گفتگو فرماتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے نکل لیئے۔ میں نے سوچا کیسے لوگ ہیں جو اپنی اولاد کو صرف ایک معمولی سا انعام دلانے کے لیئے نہ صرف خود غلط کام کرتے ہیں بلکہ ان سے بھی کرواتے ہیں۔

ان کے جانے کے بعد میں انہیں بھول کر دوسری تصاویر دیکھنے لگ گیا جو بچوں نے لی ہوئی تھیں، تھوڑی دیر بعد ایک صاحب اور آئے، یہ قدرے جوان سے تھے اور کہنے لگے آپ جج ہیں؟ میں نے کہا "جی ایسا ہی ہے"۔ کہنے لگے "آپ کو میرے بیٹے کی تصویریں کیسی لگیں؟ ابھی وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے اور یہ دیکھیں اس کی تصویریں۔ ایسا کہتے ہوئے انہوں نے میری باقی بچی دو تصویروں پر انگلیاں رکھ دیں۔

ایس او ایس ویلج کی طرح احساس محرومی، المیوں اور نامساعد حالات میں پلنے والے بچے جب بہت کچھ سہتے سہتے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے اندر موجود خداداد صلاحتیں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے خود بخود نکل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ بقول امجد اسلام امجد

جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے

اس لئے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں۔

آسودگی و منافقت کے ماحول میں پلنے والے بڑے ہو کر بس ایک ہی ہنر سیکھا کرتے ہیں کہ کب، کہاں اور کیسے نہ صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے بلکہ موقع ملے تو دوسروں سے بھی جو ہاتھ آئے چھین لینا ہے۔

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry