Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Siyasi Selfie Program

Siyasi Selfie Program

سیاسی سیلفی پروگرام

ریاست کی کئی قسموں میں سے ایک کلیپٹو کریسی یا چور شاہی کہلاتی ہے۔ یعنی رنگ، نسل، عقیدے، علاقے اور نظریے کے فرق سے بالا چوروں کا ایسا ٹولہ جو کوئی بھی روپ دھار لے مگر مقصد ایک ہی ہو۔ ریاست کو وسائل سمیت چرانا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کسے جمہوریت کہتے ہیں؟ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے چور شاہی ہی دیکھی ہے۔ جب سے موبائل آیا ہے سیلفی کی بوچھاڑ بھی اسی کے بدولت ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ موبائل کے زمانے میں یہ سارا چور شاہی نظام ایک ہی اساس پر قائم ہوتا گیا ہے۔ وہ ہے سیاسی سیلفی پروگرام۔

ہمارے ہاں عمران خان کے بارے میں کچھ حاسد کہتے ہیں کہ خان صاحب کا بس ایک ہی مشیر ہے اور وہ ہے ان کے بیڈ روم کا آئینہ کہ جس کے آگے وہ ورزش کرنے کے بعد کچھ دیر کھڑے رہتے ہیں اور آئینے میں کھڑے شخص کی سنتے بھی ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے انتھک اور انگشت شہادت کے زور پر صوبہ چلانے والے خادم اعلی میاں شہباز شریف بالکل ٹک کر نہیں بیٹھتے تھے، نہ کسی کو بیٹھنے دیتے تھے۔ مگر ان کی کارکردگی سے جلنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں صاحب تو بذات خود چلتی پھرتی سیلفی تھے۔

اگر کسی پولیس مقابلے میں دو گناہ گار یا بے گناہ بھی مر جاتے تو اس کی مبارک باد بھی افسر لوگ سب سے پہلے میاں صاحب کو دیتے۔ واہ واہ سر کیا پولیس مقابلہ ہوا ہے آپ کے دور میں؟ بیوہ کو سلائی مشین بھی دیں تو بس نہیں چلتا کہ مشین پر اپنی تصویر جڑ دیں۔ بلکہ ہو سکے تو یہ سلائی مشین بھی اپنے ہاتھوں خود کو دے کر بیوہ کو سیلفی تھما دیں۔ پھر نظام بدلا تو کچھ عرصہ رونق جاتی رہی۔ مجھے یوں لگا کہ بزدار صاحب شاید چیف منسٹر ہاوس میں ہاوس اریسٹ رہتے ہیں مگر یہ خام خیالی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور رفتہ رفتہ بزدار صاحب کی کشتی چلاتے سیلفی، چشمے سے پانی پیتے سیلفی، اور سیمینارز و محفلوں میں براجمان ہوئے سیلفیاں مارکیٹ میں نشر کی جانیں لگیں۔ سلسلہ سیلفی ہائے شب و روز مکمل بحال ہوا۔

زرداریوں کا یہ حال ہے کہ سمندر کے کنارے رہنے کا اہتمام کیا تاکہ سیلفی کے پس منظر میں سندھ کی " گڈ گورننس" کے نتائج نہ جھلک جائیں۔ اور سب سے بڑی (لارجر دین لائف) سیلفی بنانے والا موبائل آئی ایس پی آر کے پاس ہے۔ کچھ ماہ قبل تلک کچھ غیرمحب وطن عناصر تو (میرے منہ میں خاک) یہ بے پر کی اڑانے سے بھی باز نہیں آتے تھے کہ اگر آپ کسی کمرے میں باہر سے تالا لگا کر اور روشندان اور کھڑکیوں کو سیل کر کے گھپ اندھیرے میں بھی سیلفی لیں تو آپ کے پیچھے آصف غفور صاحب کا زیر لب مسکراتا چہرہ دمک رہا ہو گا۔

یہ جو ٹی وی اسکرین پر چلتی پٹیاں ہیں، یہ جو کمرہ عدالت میں جاری سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رئیل ٹائم روداد اور یور آنر کی آبزرویشنز فقرہ در فقرہ بریکنگ نیوز میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ انصاف کی سیلفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ جو بڑے بڑے منصوبے کہ جن کا عوام کی مصیبتیں کم کرنے سے کوئی خاص لینا دینا نہیں۔ یہ بھی سرکاروں کی توجہ بٹاؤ سلیفیاں ہی تو ہیں۔

جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کروڑوں میں سے چند لاکھ عورتوں کو دو ہزار روپے مہینہ دینے یا آج کے احساس پروگرام کے تحت بارہ ہزار مہینہ دینے، اسکول سے باہر رہ جانے والے ساڑھے تین کروڑ سے زائد بچوں کی موجودگی میں لگ بھگ چالیس دانش اسکول یا سو ماڈل اسکول بنا دینے کا منصوبہ، مکتب اسکول کو کاغذ کی سیلفی پر چڑھا کر ساڑھے تین سو بچوں کو ایک استاد کے حوالے کر دینے کی خواندہ حکمتِ عملی، اسپتالوں کے کاریڈورز میں پڑے مریضوں کے لیے بستروں اور ادویات پر خرچ کرنے کے بجائے دو تین ٹراما سینٹرز اور تین چار برن وارڈز بنا کر سیلفی کھڑی کرنے کا فیشن۔

میٹرو و اورنج لائن جیسے سفید ہاتھی کھڑے کرنے کی سیلفیاں۔ مہنگائی پر قابو کرنے کی بجائے پناہ گاہوں کا قیام و لنگر خانوں کی سیلفیاں۔ اب تو مجھے جمہوریت بھی وہ موبائل فون لگنے لگا ہے کہ جس سے لیڈر لوگ پیچھے ہجوم کھڑا کر کے سیلفی لیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ ہمیں کتنا عوامی اعتماد میسر ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر اگلے پانچ برس میں کتنی اور سیلفیاں بنانے کا حق مل گیا ہے۔

بابا مجھے نوکری چاہیے۔ چل آ سیلفی لیتے ہیں، بابا مجھے انصاف چاہیے، جب تک نہیں ملتا تب تک سیلفی لے لے نا، بابا مجھے تعلیم چاہیے، بس تعلیم؟ سیلفی نہیں چاہیے؟ بابا مجھے جان کی امان چاہیے، امان تو عدالت دے گی۔ چل بیٹا سیلفی لے لے رے۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza