Samaj Badal Lein
سماج بدل لیں
مذہبی تہواروں، عید الاضحیٰ وغیرہ پر لکھی گذشتہ روز کی میری تحریر نے جس طبقے کو ہرٹ کر دیا ہے ان سے معذرت چاہوں گا۔ جواباً وہ طبقہ ذاتیات پر اترا ہے اور کہیں نام لے کر اور کہیں دبے لفظوں مجھ پر لعنت بھیج رہا ہے حالانکہ لعنت کا کانسپٹ بھی مذہبی ہے۔ بھئی خدا ہوگا تو وہ آپ کی لعنت(بددعا) قبول کرتے ہوئے اگلے کو سزا دے گا ناں۔ جب خدا ہے ہی نہیں تو لعنت چی معنی؟ الحاد کے علمبردار بھائیو پہلے اپنی اینٹ تو سیدھی رکھ لو۔
بہرحال، میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی الحاد صرف و صرف قربانی کے طواف میں رہتا ہے۔ کوشر(اہل یہود کے ذبیح) پر ان کو مسئلہ نہیں اور دلیل ان کے ہاں یہ ہے کہ وہ اپنے سماج کی بات کریں گے ناں جہاں بستے ہیں۔ پارٹیوں میں یہ گوشت کھانا بھی مجبوری ہوگی۔ مسئلہ شاید گوشت خوری سے نہیں مسئلہ بس عید قربان سے ہے۔
ہمارے اس طبقے کے تین بہت بڑے مسائل ہیں۔ جانور کی قربانی، محرم اور مذہبی جلوس اور رمضان کے روزے۔
ٹھیک ہے، آپ کی نظر سے دیکھیں تو یہ مسائل سمجھ آتے ہیں۔ قربانی کرنے والے اوجھڑی و آنتیں گلی محلوں میں پھینک دیتے۔ آپ کے گھر کے سامنے ڈھیر لگا جاتے۔ اس سے آپ کو کوفت ہوتی۔ بالکل بجا مسئلہ ہے۔
مذہبی جلوس راستے بند کر دیتے ہیں۔ آپ کی آمد و رفت میں خلل پڑتا ہے یا مکمل معطل رہتی ہے۔ بالکل جینون مسئلہ ہے۔ سمجھ آتا ہے۔
روزے وغیرہ اور رمضان میں آپ کو تیس دن محصور رہنا پڑ جاتا ہے۔ آزادی چھن جاتی ہے۔ دن بھر مارکیٹس بند رہتیں یا آزادنہ کھانے پینے پر قدغن لگ جاتی ہے۔ سگریٹ کافی وغیرہ سرعام نہیں پئیے جا سکتے۔ یہ بھی اہم مسئلہ ہے۔
یقین مانیں میں ان مسائل سے متفق ہوں۔ لا اکرہ فی دین کے ماننے والوں کو کسی انسان پر جبر کرنے کا حق نہیں۔ کوئی روزے نہیں رکھنا چاہتا اسے آزادی ہو کہ جب مرضی کھائے پئیے۔ مذہبی جلوس راستے بند کر دیتے ہیں عوام الناس تکلیف سے گزرتی ہے۔ جانور کی قربانی کے بعد جو صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔
بھئی آپ کے تمام نظریات، آپ کے تمام تحفظات، آپ کے دلائل کا قائل ہونے کے باوجود میں آپ سے کہنا چاہوں گا کہ آپ جس معاشرے میں بس رہے ہیں، جہاں کاروبار کر رہے ہیں، جس دھرتی سے تعلق ہے وہاں آپ لوگوں کی کثیر تعداد کو ڈانگ سوٹے سے تو ہانک نہیں سکتے۔ اپنی مرضی کا سماج آپ کو نہیں ملا تو کیا آپ سماج سے لڑنے لگیں گے۔ بھئی آپ یہاں مس فٹ ہیں تو سماج بدل لیں۔ یا پھر اسی سماج کو برداشت کریں اور انہی لوگوں کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے ہوئے رہنا سیکھ لیں۔ آپ قلم کو ڈانگ بنا کر لوگوں کے سر پر مارنے کو تُلے رہتے ہیں۔
اگر لوگوں کے مذہبی عقائد پر آپ انگلی اٹھائیں گے تو پھر ان کی جانب سے ری ایکشن آئے گا۔ میں کہتا ہوں یہ سارا سماج جاہل ہے آپ دانش مند ہیں۔ جہل سے تو مقابلہ ممکن نہیں۔ آپ ہجرت کر جائیے اور آزاد معاشروں میں جا بسیں۔ مگر دیکھنے میں تو یہ بھی آیا کہ آزاد معاشروں میں بسنے والے الحاد کے داعی وہاں بھی سکون سے نہیں رہ پاتے اور گاہے گاہے پھر انہی مسائلی سوئچز میں انگلی دیتے رہتے۔
اگر یہ مثالی مسلم معاشرہ نہیں ہے جو کہ نہیں ہے تو آپ بھی تو خالص ملحد یا ملاوٹ سے پاک لبرل نہیں ہیں۔ دو متضاد انتہاؤں کا ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے۔ معتدل مزاجی ہر جانب عنقا ہے۔ پھر آپ اس پر بھی خفا ہو جاتے کہ ہمیں خالص ملحد یا خالص لبرل کیوں نہیں مانتا۔
ارے بھئی، یہ مسائل چودہ سو سال پرانے ہیں۔ نہ آج تک طے ہو پائے نہ قیامت تک ہو سکتے۔ آپ اپنے موضوعات کا درست چناؤ کیجئیے۔ آپ اپنی توانائی اس سمت خرچ کریں جہاں سے آپ کو قدر بھی ملے۔ آپ نہ پیامبر ہیں نہ زمین پر خدا کے واحد نائب ہیں۔ مذاہب و مسالک کے مسائل اور ان میں در آنے والی غیر منطقی رسومات پر لکھ کر آپ اپنی زندگی اجیرن کریں گے اور تو کچھ نہیں۔ اب آپ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ میں کہہ رہا ان مسائل پر لکھنا بولنا چھوڑ دیں۔ نہیں آپ لگے رہیں مگر جب آپ سے اختلاف رکھتے کوئی بولے تو اسے بھی اتنی ہی سپیس دیں جتنی خود کے لیے چاہتے ہیں۔ اتنا سا مدعا ہے بس۔
غلط عمل کو غلط کہنا چاہئیے۔ مثلاً مدارس و یونیورسٹیوں سے آتیں جنسی درندوں کی مذمت، دین کے نام پر عورت کے دینی حقوق کی صلبی، درگاہوں، مزارات اور مذہبی محافل و جلوسوں میں پیش آنے والی بدعتیں، بین المذاہب نفرت کو ابھارنے والے مُلا کی مذمت، مذہبی جنونیت، لبرلز کی جنونیت، احرام باندھ کر خود کو دکھانے والا یا شراب کا گلاس بھر کر خود کی نمائش کرنے والا میرے برابر ایک سے ہیں۔ دونوں اپنے سماج سے دین اور لادینیت کی بنیاد پر سراہا جانا چاہتے ہیں۔ ریاست کو بنام مذہب یرغمال بناتے گروہوں کی مذمت، سیاسی لیڈران کے مذہب کارڈ استعمال کرنے کی مذمت، مدارس میں آتی برادر اسلامی ممالک کی فنڈنگ کی مذمت وغیرہ وغیرہ سمیت لاتعداد مکروہ و مذمتی عوامل اس معاشرے میں موجود ہیں۔ کرئیے مذمت، کرنا چاہئیے۔ مگر بھائی لوگوں کے بنیادی مذہبی عقائد کو تو نہ چھیڑو۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد، قیامت، قبر، جنت، دوزخ، فرشتے، کتاب، پیغمبر، عیدین، وغیرہ وغیرہ کو تو نہ چھیڑو۔ جو جہاں لگا ہوا ہے اسے لگا رہنے دو۔ جس نے ان بنیادی اراکین اسلامی کی جیسی بھی سمجھ پائی ہے اسے سمجھنے دو۔ انسان کے خیالات و نظریات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور مذہبی عقائد میں بھی وہ تبدیلی کا شکار ہوتا رہتا ہے۔
بصد ادب کہنا چاہوں گا کہ میرے ناقص مشاہدے اور ناقص رائے میں ہمارا ایک طبقہ دوسری حد تک جا چکا ہے اور مذہبی طبقہ دوسری حد پر۔ اب یہ تفریق نظر نہیں آتی کہ دونوں میں زیادہ متشدد خیالات کا کون ہے۔ اس لڑائی نے ایسے فالور طبقے کو جنم دیا جو پینڈولم کی مانند دونوں کے بیچ جھولتا رہتا ہے۔ کنفیوژن کا شکار ہو چکا ہے۔