Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Safar Ke Doran

Safar Ke Doran

سفر کے دوران

پچھلے دنوں میں لمبے سفر پر رہا۔ میں نے کُل بارہ فلائٹس لیں جن میں Jetstar، Qantas اور قطر ائیرلائن شامل ہے۔ ان بارہ فلائٹس میں فضائی میزبانوں کا رویہ، انداز اور پروفیشنل ازم کمال حد تک کا تھا۔ مجال ہے کہ چہرے پر بیزاری ہو۔ یوں نہیں کہ مسافر ان کو بار بار تکلیف نہیں دیتے۔ آسٹریلیا و نیوزی لینڈ جیسے مہذب معاشروں میں بھی مسافروں کی کیفیت لگ بھگ ویسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں۔

یہاں تک کہ ریڈنگ لائٹ جلانے کو بھی ہوسٹس کو کال کرتے ہیں جو کہ بازو بڑھا کر خود جلائی جا سکتی ہے۔ مگر عملے کی جبین پر شکن نہیں آتی۔ کھانا سرو کرتے ہوئے دو بار سے زائد پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو کچھ اور چاہئیے؟ کیا آپ کو فلاں جوس بھی دے دوں؟ اندرون ملک فضائی سفر کرتے ائیر سیال اور فلائی جناح پر عملہ کافی بہتر پایا ہے۔ گو کہ عالمی معیار کے مطابق تو نہیں مگر باقیوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔ پروفیشنل ازم کو ہمارے ہاں دور سے سلام ہے اس لیے کمی کوتاہی نظر آتی رہتی ہے۔

ایک ماہ وہاں ڈرائیو کرکے عادت بگڑ گئی تھی۔ وہاں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اشارے پر رکتے اگلی گاڑی سے کم از کم پانچ میٹر فاصلہ ناں رکھا ہو اور چلتے ہوئے پندرہ میٹر سے کم فاصلہ ہو۔ وگرنہ سخت چالان ہے۔ چالان کے خوف کے علاوہ بھی وہ معاشرے انسانیت کو اپنا چکے ہیں۔ ٹریفک کا نظام منظم ہے۔ ہارن، ہارڈ بریکس اور بمپر ٹو بمپر ڈرائیو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میری عادت بگڑ چلی تھی وہ تو مولا کا شکر کہ آج آفس جاتے احساس ہوا کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں؟ مجھے احساس دلانے میں تین چار موٹر سائیکل سواروں، دو تین چنگ چی رکشوں اور دو تین کار سواروں کا عمل دخل رہا۔

انہوں نے ہارن مار مار کر، کٹ مار کر، آوازیں دے کر بھی کہا کہ "او پائی پشاں ہٹ جا"۔ پھر میں نے خود پر لعنت بھیجی اور پاکستانی انداز اپنا لیا۔ وہاں ٹیکسی لینا پڑی تو ٹیکسی ڈرائیورز رسمی جملوں کے تبادلے ہنستے ہوئے کرتے اور بس پھر اپنی ڈرائیو پر توجہ دیتے۔ اگر آپ خود بات کرنا چاہیں تو ٹھیک وگرنہ ڈرائیور آپ سے بات نہیں کرے گا۔ یہاں تو ٹیکسی والے آپ کا مغز کھا جاتے ہیں اور وجہ بس یہ کہ اپنے دکھڑے سنا کر سواری سے بنام ہمدردی جو نکلوا سکو نکلوا لو۔

لاہور ائیرپورٹ سے گھر تک ٹیکسی لی۔ ٹیکسی والا رنگ روڈ پر سارا راستہ موبائل پر کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے بات کرتا رہا۔ بیچ میں میسجز بھی دیکھتا اور لین سے توجہ ہٹا کر دوسری لین میں گاڑی ڈال دیتا۔ دو بار اس کو سمجھایا کہ بھائی آگے دیکھ مگر جواب آیا "او پائین ٹینشن نئیں لینی، ساڈا روز دا کم اے"۔ مسئلہ اس کا بس یہ تھا کہ وہ ایک گاڑی کا سودا کر رہا تھا اور اس میں ٹوکن فیس کم کروانا چاہتا تھا یعنی آٹھ ہزار روپے کا سالانہ ٹوکن فیس وہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ رنگ روڈ سے اُترے تو ایک بابا جی اپنی بیٹی کو بائیک پر بٹھائے جا رہے تھے۔ کچھ قصور ان کا کہ وہ بھی فاسٹ لین میں چلا رہے تھے اور کچھ اپنا ڈرائیور موبائل میں لگا ہوا تھا۔

ہلکی سی ٹکر ہوئی اور بابا جی لڑکھڑا گئے۔ دونوں گر گئے۔ ڈرائیور کے اوسان خطا ہو گئے۔ میں باہر نکلا تو یہ جان کر تسلی ملی کہ دونوں ٹھیک ہیں کسی کو خراش تک نہیں آئی۔ بس بائیک تھوڑی سی سڑک پر رگڑی گئی ہے۔ خیر، معاملہ نپٹ گیا۔ میں نے ڈرائیور کو کہا کہ چادر مود انسان یہ بتا کہ تیری یا میری یا ان باپ بیٹی کی جان آٹھ ہزار کی تھی؟ اگر کچھ ہو جاتا تو؟ اس نے سن کر جواب میں معافی مانگی اور پھر موبائل رکھ دیا۔

ابھی ایک دن گزرا ہے۔ ایک دو دن تک میں اپنے سماج میں مکمل ڈھل جاؤں گا تو پھر سب نارمل لگے گا۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid