New Zealand Katha
نیوزی لینڈ کتھا
ملک سے باہر آج پچیسواں دن بیت رہا ہے۔ ان سارے دنوں میں فش اینڈ چپس، شوارمے اور ایسے ہی بے ڈھنگا سا کھا کر منہ کا ذائقہ ہی بکبکا سا ہوگیا تھا۔ حلال فوڈ کم میسر ہے۔ مل تو جاتا ہے مگر پھر شدید ہی مہنگا ملتا ہے۔ زیادہ تر بھارتیوں اور پاکستانیوں کے ریسٹورانٹس ہیں۔ میں روٹی کو مِس کر رہا تھا۔ وناکا ٹاؤن میں گھومتے ایک انتہائی اعلیٰ لوکیشن پر "بمبئے پیلس" نامی ریسٹورانٹ نظر آیا جو وناکا جھیل پر واقع تھا۔ اس کی ٹاپ کی بالکونی سے جھیل کا منظر نظر آتا تھا۔ بظاہر یہ فائن ڈائن ریسٹورنٹ تھا اور فائن ڈائن تو پھر دو ہاتھ ایکسٹرا مہنگے ہوتے ہیں۔
سفر میں دل کرے تو ہزاروں روپے کھانے پر لگا دیتا ہوں مگر جب دل ناں مانے تو پھر بجٹ میں ہی رہتا ہوں۔ نیوزی لینڈ مہنگا ملک ہے۔ میں پیسے لگا کر تھک گیا ہوں۔ بھوک نے تنگ کیا تو سوچا کہ پیسوں پر لعنت بھیجو آؤ اس ریسٹورنٹ میں جا کر موج ماریں۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ ٹاپ کی بالکونی پر جا بیٹھا جہاں سے جھیل کا منظر عین سامنے تھا۔ کیا خوبصورت منظر تھا۔ سارے پیسے اسی منظر کے تو ہوتے ہیں۔ ویٹرس آئی۔ یہ گوری تھی۔ میں نے مینو دیکھا۔ بریانی چالیس نیوزی لینڈ ڈالرز یعنی 7100 روپے کی۔ اسی طرح باقی ڈشز کے ریٹس تھے۔
میں نے دیکھا کہ دیسی روٹی بھی مینیو میں شامل ہے اور لکھا ہوا ہے کہ دیسی گھی لگا کر سرو کی جاتی ہے۔ یہ پڑھ کر میری روٹی کھانے کی تمنا بیدار ہوگئی۔ روٹی سب سے سستی تھی۔ ایک نیوزی لینڈ ڈالر کی ایک یعنی 178 پاکستانی روپے۔ میں نے دو روٹیاں آرڈر کیں اور ساتھ ایک کڑک چائے آرڈر کی۔ ویٹرس میرا منہ دیکھتے بولی "اور کچھ؟" میں نے کہا "بس یہی کچھ"۔ وہ حیران ہو کر بولی "چاول یا کری یا باربی کیو کچھ نہیں لو گے؟" میں نے ہنستے ہوئے کہا "ناں۔ بس یہی لاؤ"۔ اس نے مجھے ہنس کے دیکھا اور پلٹ گئی۔
میں جھیل کی جانب دیکھتا رہا۔ دس منٹ گزرے ہوں گے۔ ابھی آرڈر سرو نہیں ہوا تھا۔ ایک بندہ آیا۔ عمر ہوگی پینتالیس سے پچاس تک۔ سلام کیا اور بولا "میرا نام اشرف زمان ہے۔ راولپنڈی پاکستان سے ہوں"۔ میں نے سمجھا کہ یہ شاید پہچان کر آ گیا ہے۔ میں نے کہا "جی اشرف صاحب "۔ جواب آیا "آپ کا تعارف؟" مجھے سمجھ آ گئی کہ شاہ نوں ساری دُنیا تے نئیں جاندی۔ میں نے اسے اپنا نام بتایا "میرا نام سید مہدی بخاری ہے اور لاہور پاکستان سے ہوں"۔ یہ سُنتے ہی وہ پنجابی میں بولا "ادھر بیٹھ سکتا ہوں؟" میں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔
بیٹھتے ہی پنجابی میں بولا "ہجے تُسی شاہ او جے کر شیخ ہوندے تے کی ہوندا؟"(ابھی آپ شاہ ہیں اگر شیخ ہوتے تو کیا ہوتا)۔ میں اس بےتکلفی کی وجہ نہیں سمجھ پایا اور سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس کی بےتُکی بات اچھی نہیں لگی۔ بہرحال چونکہ وہ اب مہمان تھا تو میں نے ہنس کے ٹال دیا اور چپ رہا۔ پھر ہنس کر پنجابی میں بولا "میں اس ریسٹورنٹ کو چلا رہا ہوں۔ میں کچن میں تھا جب آپ داخل ہوئے۔ میں نے کیمرے سے دیکھ لیا کہ دیسی ٹورسٹ لگ رہا ہے یا پاکستان سے ہے یا بھارت سے۔ پھر ویٹرس نے آ کر آپ کا آرڈر بتایا۔ میں آپ کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا کھانا میری جانب سے ہے۔ آپ کیا کھانا چاہو گے بلا جھجھک بتائیں"۔
مجھے اب اس شخص پر بہت پیار آیا۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ یہ سمجھ رہا ہے میرے پاس کھانے کا بجٹ نہیں ہے۔ پردیس میں کسی کا احساس کرنا بہت نعمت ہے اور کمیاب ہے۔ مجھے ہنسی بھی آ گئی۔
ہاہاہاہاہاہا اشرف صاحب آپ کو کیا لگا کہ میں دو روٹیاں چائے کے ساتھ منگوا رہا ہوں تو اس کا مطلب میرے پاس بجٹ نہیں ہے؟
"ہاں ویسے مجھے تو یہی لگا تھا۔ لیکن پھر بھی آپ کھانا آرڈر کریں۔ اسی بہانے بات چیت ہو جائے گی"۔ اشرف صاحب نے بھی مسکرا کے جواب دیا۔
سر جی آپ کا شکریہ مگر یقین مانیں بجٹ کا مسئلہ نہیں۔ میں پچیس دن سے سفر پر ہوں بس روٹی کھانے کی طلب ہو رہی تھی اور مینیو میں لکھا تھا کہ دیسی گھی میں تر روٹی ہوگی تو دل کیا یہی ٹھیک ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ میں اکثر پاکستان میں سفر کرتے تندوری خمیری روٹی لیتا ہوں اور ہری مرچ و پیاز کے ساتھ کھا جاتا ہوں۔ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ اور بات بھی سچ ہے میں ایسا کرتا بھی ہوں۔ دراصل مجھے خستہ نان کے ساتھ ہری مرچ اچھی لگتی ہے۔ پاکستان میں سفر کرتے کئی بار ایسا ہی لنچ کیا ہے۔ انہوں نے سُن کر پھر قہقہہ لگایا اور بولے "اچھا پھر ٹھیک ہے۔ بھجواتا ہوں"۔ وہ اُٹھ کر چلا گیا۔
کچھ دیر بعد روٹیاں اور چائے آ گئی۔ پھر اشرف صاحب بھی آ گئے اور پھر بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی۔ میرے بارے تفصیل سے جاننا چاہا اور میں بتاتا رہا ساتھ ساتھ چائے کے ساتھ روٹیاں کھاتا رہا جو کہ بہت لذیذ تھیں۔ بعد ازاں ٹوٹل بل چھ ڈالرز بنا جو اشرف صاحب نے نہیں لیا۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ بل تو لیں مگر وہ مُصر رہے کہ مہمان سے چائے کا کونسا بل ہوتا ہے؟ سلامت رہیں۔
میں نے وہاں سے نکل کر سوچا کہ یہ بندہ کس طرح کتنا کچھ جھَیل کر ملک سے اپنے مستقبل کی خاطر نکلا ہوگا۔ کیسے محنت مشقت کرکے پیسہ کما کر اس نے ریسٹورنٹ کھولا ہوگا اور پھر بھی یہ مکمل بے حس بزنس مین نہیں بن پایا۔ ابھی بھی اس کا احساس زندہ ہے۔ سفر میں ہر ملتا شخص ایک مکمل داستان ہے۔ ہر روز ایک کتاب جیسا ہے اور ہر لمحہ ایک کہانی ہے۔ یہی زندگی کا سبھاؤ ہے۔ مسافر کو قیام سے کیا غرض، وہ تو بس منظر آنکھوں میں بھرتا ہے، کبھی چپ چاپ ایک جگہ گھنٹوں بِتاتا رہتا ہے اور کبھی یادوں و باتوں کی ٹوکری اُٹھاتا ہے اور اَن دیکھی زمینوں کی جانب چل دیتا ہے۔ کردار وہیں رہ جاتے ہیں۔ کہانی آگے بڑھ جاتی ہے۔