Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Murshid Usay To Hum Se He Fursat Nahi Mili

Murshid Usay To Hum Se He Fursat Nahi Mili

مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی

جب بھی کوئی اہم ادارہ جاتی ملازم مجھے سرحدوں کی حفاظت اور قربانیوں کی تفصیل بتا کر جتانا چاہتا ہے کہ ان کے دم سے ہی ملک قائم ہے نجانے مجھے کیوں ہنسی آ جاتی ہے۔ حالانکہ میں صدق دل سے چاہتا ہوں کہ یہ وہی کام کریں جن کے لیے یہ ہیں اور قومی خزانے یعنی ٹیکس پئیرز سے خراج و تنخواہیں وصولتے ہیں۔

سنہ 48 میں بھارت نے کشمیر میں فوج اتاری تو آرمی چیف ڈیوڈ کریسی نے بھارتی فوج کے مقابل اترنے کے لیے جناح کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ مجبوراً جناح صاحب کو قبائل سے اپیل کرنا پڑی اور جو ایک تہائی کشمیر آزاد کشمیر کی صورت ہمارے پاس ہے وہ قبائل کی جنگی کاوشوں کے مرہون منت ہے۔

سنہ 65 میں جوانوں نے آپریشن جبرالٹر شروع کیا اور کشمیر میں مجاہدین کی ٹولیاں گھسا دیں۔ کشمیر میں درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی کے سبب وہاں غصے کی لہر ابھری تھی۔ جوانوں نے اس موقع پر چوکا لگانے کا سوچا۔ اس آپریشن کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ بر سر پیکار کمانڈوز اور سول جنگجوؤں کو عقب سے کمک پہنچانے اور سرینگر پر قبضے تک اس آپریشن کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔

غزنوی فورس نامی ٹولی جو ميجر منور کی کمان ميں راجوری کے علاقے ميں داخل کی گئی اس نے کچھ اہداف حاصل کر لئے مگر بھارتی فوج کے سامنے زیادہ دن نہ ٹک سکی۔ شدید جانی نقصان کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اسی آپریشن جبرالٹر کے نتائج خطرناک نکلے اور اسی آپریشن کے بطن سے 1965 کی پاک بھارت جنگ برآمد ہوئی۔ بھارت نے پنجاب اور راجھستان کے بارڈرز کھول دئیے اور پاکستان پر فل سکیل جنگ مسلط کر دی۔

پینسٹھ کی جنگ سترہ دن جاری رہنے کے بعد سیز فائر پر منتہج ہوئی۔ تاشقند میں لال بہادری شاستری اور ایوب خان میں معاہدہ ہوا اور جنگ بندی ہوئی۔ یہ جنگ نہ کوئی جیتا نہ ہارا۔

سنہ 71 میں بنگالیوں کو "سبق" سکھانے کے لیے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا گیا۔ پاک فوج کا خیال تھا کہ بنگالی ڈرپوک قوم ہیں ان کو زور بازو سے توڑا جا سکتا ہے۔ سیاسی غیر یقینی سے جنم لینے والے اس آپریشن کا انجام دردناک ثابت ہوا۔ بنگالیوں پر جبر کا نتیجہ "مکتی باہنی" نامی فورس کی صورت سامنے آیا جس نے پاک فوج کے خلاف چھاپہ مار جنگ کا آغاز کیا۔ بلآخر بھارتی فوج نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے دخل اندازی کی اور یوں نہ صرف بنگلہ دیش نامی ملک وجود میں آیا بلکہ افواج کی عالمی تاریخ میں سب سے بڑا سرنڈر ہوا۔ نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ شملہ معاہدہ میں بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی سے منت کی اور ان نوے ہزار فوجی قیدیوں کی واپسی کی راہ کھُلی۔

سنہ 99 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے پاکستان آئے۔ اس وقت بھارت کی معاشی صورتحال سخت خراب تھی۔ بھارتی کرنسی پاکستانی روپے سے نیچے تھی۔ بھارت کے ذخائر ڈیڑھ ارب ڈالرز رہ گئے تھے جبکہ پاکستان کے ریزرو میں ساڑھے تین ارب ڈالرز موجود تھے۔ واجپائی صاحب چاہتے تھے کہ پاکستان سے تجارت شروع کی جائے تاکہ دونوں ملکوں کا بھلا ہو۔ سیاچن محاذ کو بند کیا جائے اور کشمیر کے دیرپا حل واسطے مذاکرات کا آغاز ہو۔

جیسے ہی واجپائی دورہ مکمل کرکے واپس لوٹے ہمارے جوانوں نے کارگل محاذ کھول دیا۔ ایک بار پھر آپریشن جبرالٹر جیسی غلطی دہرائی گئی۔ ایک بار پھر اس کا نتیجہ بھیانک نکلا۔ ہزاروں سول جنگجوؤں کے ساتھ فوجی جوان بھی پسپائی اختیار کرتے مارے گئے۔ نواز شریف نے تو یہ کہا تھا ناں کہ مشرف نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا مگر واجپائی نے کہا تھا "پاکستانی فوج نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا"۔ بھارتی سرکار جانتی ہے کہ پاکستان میں اصل حکمرانی کون کرتا ہے۔

قدرت کا نظام بھی کمال ہے۔ ہم نے واجپائی کے ساتھ دھوکا کیا قدرت نے وہاں مودی لا بٹھایا جو فاشسٹ حکمران ہے اور آج انڈیا معاشی ترقی کرتا عروج پر پہنچ رہا ہے۔ ہمارا کیا حال ہے وہ آپ جانتے ہیں۔

تو جب مجھے کوئی افسر یا ادارہ جاتی الفت کا شکار شخص "کارنامے" سنانا چاہتا ہے تو میں کچھ نہیں بولتا۔ بس ہنسی آ جاتی ہے۔ آپ ان کی وردیوں پر سجے میڈلز کی قطار دیکھ لیں جیسے آدھی دنیا فتح کرکے آئے ہیں۔ وہ میرے دوست میرے سرائیکی شاعر افکار علوی کی نظم کا ایک شعر ہے ناں

مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی

پس تحریر: آج چھٹی کا دن ہے اور بیگم سوئی ہوئی ہے۔ مجھے بھوک لگی ہے مگر وہ کہتی ہے کہ سو جائیں آج چھٹی ہے۔ خالی پیٹ میں دانشور بن جاتا ہوں اور مجھے رہ رہ کے غصہ آنے لگتا ہے۔ مگر نئیں نئیں میں چھتر نئیں کھانے بس اونج ای۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari