Mere Abba Ji (5)
میرے ابا جی (5)
دو پہاڑی دریا جب آپس میں ملتے ہیں تو اس مقام پر بہت شور ہوتا ہے۔ گھاٹی میں تیز ہوائیں چل رہی ہوتیں ہیں۔ کبھی کبھی دونوں دریا شوریدہ مزاج ہوتے ہیں۔ آپس میں مل کر جھاگ بناتے ہیں اور کبھی ایک دریا پرسکون بہتا ہے دوجا تیز رفتار پانیوں کو اس کے سپرد کرتا ہے۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ آفس کی کھڑکیاں دباؤ سے لرز رہی تھیں۔ میں نائٹ شفٹ پر اکیلا نوکری کر رہا تھا۔ ہیڈفونز کانوں سے لگائے میں اپنی بڑی بہن کا رونا سنتا رہا۔ بات کرتے اس کی ہچکی بندھ جاتی اور پھر وہ کافی دیر چپ رہتی۔ میرے پاس بھی کوئی حرف تسلی ایسا نہیں تھا جو اسے شانت کر سکے۔ دریا تیزی سے بہتا رہا اور پھر رفتہ رفتہ پرسکون ہوتا گیا۔ رو کر آخر انسان کو صبر آ ہی جاتا ہے۔
ہوا بھی رفتہ رفتہ دھیرے ہونے لگی۔ جھکڑ تھمنے لگا۔ میں نے سسکیوں کے لمبے وقفے کو توڑنا چاہا۔
مجھے معاف کرنا یہ خبر بروقت نہیں دے سکا۔ اگر دے بھی سکتا تو اس سے کیا فرق پڑ جانا تھا اور مجھے یہ معلوم ہی نہیں کہ آپ کے اہم امتحانات چل رہے ہیں۔ ورنہ جہاں دس ماہ بعد بتایا وہاں کچھ دن اور نہ بتاتا۔ مجھے میری ماں نے زور دے کر حکم دیا کہ ابھی مطلع کروں۔ ان کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ میں نے اطلاع نہیں دی۔
اس نے اپنی سانسیں درست کیں۔ پھر بولی
تم نے غلط کیا ہے اور تم کو سوری کرنا چاہئیے۔ پہلے دن سے سوری کرنا چاہئیے۔ جب ملے تھے مجھے اسی وقت ساری صورتحال صاف بتانا چاہئیے تھی۔ جو فنانشل حالات تھے وہ بھی اور فادر کے کینسر بارے بھی۔
ٹھیک ہے۔ میں معافی مانگتا ہوں۔ مگر تب پہلی ملاقات تھی اور اس موضوع پر بات ہوئی بھی نہیں تھی۔ پہلی ملاقات اجنبیوں جیسی ہوتی ہے۔ اس وقت میں کیا اپنی کہانی سنانے لگتا۔ مجھ سے پوچھا ہوتا تو جواب دیتا۔ لیکن آپ ٹھیک کہتی ہو اس پر سوری کرتا ہوں۔
پھر ایک لمبا وقفہ خاموشی کا آیا۔ یہ کال چونکہ انٹرنیٹ کے ذریعہ ملی ہوئی تھی اس لیے شاید اسے آواز ٹوٹ کر جا رہی تھی۔
مجھے اپنا فون نمبر بھیجو میں فون پر کال کرتی ہوں۔ یہاں آواز ٹھیک نہیں آ رہی۔
میں نے نمبر نوٹ کروا کر کال کاٹ دی۔ انتظار کرتا رہا کہ ابھی کال موصول ہوگی۔ سیکنڈز منٹوں میں بدل گئے اور پھر منٹ گھنٹے میں۔ کال نہ آئی۔ مجھے لگا کہ شاید وہ شدید ناراض ہے اور صدمے میں ہے اس واسطے شاید کال نہ آئے اور یہ فون بند کرنے کا اس کا بہانہ ہو۔ دوسری طرف وہ شاید خود کو سنبھالنے پر لگی ہوئی تھی۔ مجھے گھنٹہ ڈیڑھ بعد کال آئی۔ میں نے اُٹھائی۔ اب وہ کافی نارمل ہو چکی تھی۔
اگر تم پہلے بتا دیتے تو شاید میں کچھ مدد کر پاتی۔ تم نے یہ بہت بڑی غلطی کی ہے۔ میرا بھی اتنا ہی حق تھا جتنا تمہارا۔ کوئی سوری اس غلطی کا مداوا نہیں ہو سکتی۔
ٹھیک ہے۔ مگر آپ کیا مدد کر پاتیں؟ ابو نے علاج کے لیے پیسے آپ سے کسی صورت نہیں لینے تھے اور جگر ان کا ناقابل علاج ہو چکا تھا۔ یقین مانو آپ کوئی مدد نہیں کر پاتی۔ اگر یہ سوچ کر پچھتاوا ہو رہا ہے کہ میں کچھ نہیں کر پائی تو یہ بیکار کا پچھتاوا ہے۔
میں کوشش کر سکتی تھی کہ ان کو علاج کے لیے یہاں لا سکوں۔ مجھے موقع تو ملتا۔ کوشش تو کرتی ہو سکتا ٹرانسپلانٹ ممکن ہو پاتا۔
میں چپ رہا۔ پھر وہ خود ہی بولی۔
تم کیا کر رہے ہو؟ میڈیکل میں داخلہ لے لیا؟ کوئی پرابلم ہے تو مجھے بتاؤ۔
نہیں، میرا میڈیکل میں انٹرسٹ نہیں تھا۔ میں فیل ہوگیا تھا۔ پھر کمپیوٹر سائنس پڑھی اور اب انجئینرنگ کی ڈگری کے ساتھ ایک جاب کر رہا ہوں۔ انٹرنیٹ سروس پروائڈر ایک کمپنی ہے اس میں کسٹمر سپورٹ کی جاب ملی ہے۔
اچھا۔ اور اس جاب سے گزر بسر ہو جاتا ہے یا کوئی پرابلم ہے؟ تم مجھے ابھی سب کچھ صاف بتا سکتے ہو۔
نہیں، اب کوئی پرابلم نہیں۔ ابا کے علاج پر بہت زیادہ اخراجات ہو جاتے تھے۔ تب پرابلم تھی۔ اب وہ اخراجات ختم ہو چکے ہیں اور سب نارمل ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کتنی سیلری ہے تمہاری؟
اب یہ سوال اس نے شاید یہ جاننے کے لیے پوچھا کہ اندازہ لگا سکے یہ سچ کہہ رہا یا مجھے سے مدد نہیں لینا چاہتا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اسے بڑھا چڑھا کر سیلری بتا دی تاکہ یہ مجھ پر ترس کھا کر پھر وہی بات نہ کرنے لگے کہ اس میں کیسے گزارا ہو سکتا۔ تنخواہ سن کر اس کی تسلی ہوگئی۔ میں نے بھی بات بدلنے کو اس سے سوال کیا، یہ آپ کے فائنل پیپرز ہو رہے ہیں کیا؟ ان کے بعد آپ میڈیکل اسپیشلسٹ ہو جاؤ گی؟
ہاں، بس ایک سال مزید رہ گیا ہے پھر ہو جاؤں گی۔ اوہ ہاں، یہ موقعہ تو نہیں بتانے کا مگر اب بات ہو رہی پھر نجانے کب ہو۔ میں نے چھ ماہ پہلے شادی کر لی ہے۔
واہ۔ بہت مبارک ہو۔ کہاں کر لی وہیں امریکا میں؟
ہاں۔ میرے ساتھ ہی پڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہیں۔ بھارت کے شہر احمد آباد کے قریب ایک جگہ سے ہیں۔ سید فیملی ہے۔ بس اچانک ہی شادی ہوگئی۔ ماما اور فادر کو وہ فیملی پسند آئی۔ ان کو بھی میں آ گئی۔ تو بس فوراً ہوگئی۔
اچھا کیا۔ جہاں قسمت ہو وہاں ہو جاتی ہے۔ پسند سے ہو جائے تو اچھا رہتا ہے۔ تو اس کا مطلب آپ دونوں ایک ساتھ ہی سٹڈی سے فری ہو گے۔ پھر اپنا ہسپتال کھول لینا۔ اچھا ہے۔
پہلی بار اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
نہیں یہاں ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوراً ہسپتال کھول لو۔ ابھی کافی عرصہ ہم ہسپتال میں بطور سرجن جابز کریں گے۔ پھر پرائیویٹ پریکٹس کر سکیں گے۔ ابھی اس میں کافی سال ہیں۔
اس رات کافی دیر تک لمبی گفتگو چلتی رہی جس میں کبھی افسوس در آتا اور کبھی روزمرہ پر گفتگو ہونے لگتی۔ وہ کال مجھے یاد ہے کال کا دورانیہ مکمل ہونے کی وجہ سے کٹی تھی۔ وہ شادی کر چکی تھی۔ خوش تھی۔ مجھے بتا چکی تھی کہ آنے والے سال مزید مصروفیت کے سال ہوں گے۔ میں خوش تھا کہ وہ اپنی زندگی سنوارنے پر کس قدر فوکس ہے اور یقیناً وہ ایک دن بہت بڑی سرجن ڈاکٹر بنے گی۔ اس دن کے بعد شاید ایک آدھ بار ای میلز پر بات ہوئی۔ وہ حال احوال خیر خیریت معلوم کرنے والی ای میلز تھیں۔
وقت یونہی کاوش روزگار میں بیتتا گیا۔ میری ڈگری پاس ہونے تک میں جاب پر پروموشن پاتا رہا اور ڈگری پاس ہوتے ہی مجھے کمپنی نے بطور نیٹورک انجینئیر پروموٹ کر دیا۔ تنخواہ یکدم کافی ہندسے عبور کر گئی۔ ان سارے سالوں میں دو تین بار ہی اس سے رابطہ ہوا۔ میں بھی زندگی کے جھکڑوں میں گھومتا رہا وہ بھی اپنی پڑھائی اور فیملی میں مصروف رہی۔ پھر والدہ کی بیماری کا انکشاف ہوا۔ ان کے دونوں گردے لمبا عرصہ شوگر بھگتانے کے سبب فیل ہو چکے تھے۔ اس دوران ایک اہم واقعہ اور ہوا۔
وہ یاہو میسنجر اکاؤنٹ جو بہن سے رابطہ کرنے کے واسطے بنایا تھا اس پر سنہ 2006 میں میرا رابطہ میری پہلی بیگم سے ہوا۔ بات بڑھی تو میں نے شادی کر لی۔ میری اپنی فیملی بن چکی تھی۔ اماں کے رینل فیلئیر کا جب انکشاف ہوا اس وقت میں ذہنی طور پر آپ سیٹ تھا۔ بیگم کے ساتھ کافی ڈیفرنسس ہو چکے تھے۔ میری بیٹی اور بیٹا تھے جو بہت چھوٹے تھے۔ اماں کی بیماری کے سبب میرے اخراجات پھر سے بڑھ گئے۔ اک بار پھر زندگی نے مجھے چکرا کر رکھ دیا۔ ایک بار پھر سالوں پر محیط ڈپریشن کا دور مجھ پر بیتا۔
ہفتے میں تین بار ڈائلاسس ہونے لگے۔ ہر ڈائلاسس سیشن پر اچھا خاصہ خرچ اُٹھنے لگا۔ ایک ماہ میں لاکھ سے اوپر ڈائلاسس سیشنز اور ادویات پر لگ جاتا تھا۔ پھر اماں نے اس خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ بہن کی شادی ان کی زندگی میں کر دوں۔ اللہ کا کرم یہ رہا کہ اچھا رشتہ مل گیا۔ بہن کو وداع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد وہ امیگریشن لے کر کینیڈا منتقل ہوگئی۔ واٹس ایپ کا زمانہ آیا تو میں نے ربیعہ کا نمبر واٹس ایپ پر چیک کیا۔ وہ نمبر وہاں ایکٹو نہیں تھا۔
سنہ 2017 تک آتے اماں کو گزرے سات سال ہو چلے تھے۔ میری پہلی شادی کو ناکام ہوئے ایک سوا سال بیت چکا تھا۔ اس عرصے میں دوسری شادی کر چکا تھا۔ ایک دن اچانک واٹس ایپ پر تین چار مس کالز موصول ہوئیں۔ جب موبائل دیکھا تو وہ ربیعہ کی کالز تھیں۔ میں نے جواباً ڈائل کر دیا۔ اس نے ویڈیو کیمرا اوپن کیا۔ پہلی بار اپنے شوہر سے بات کروائی۔ اس کے دو بیٹے تھے ان سے بات کروائی۔ وہ مجھے انکل کہنے لگے تو ان کو ٹوک کر انگریزی میں بولی "آپ کو ابھی ایک ورڈ سکھایا تھا ناں؟ وہ بولو"۔ پھر بچوں کو یاد آیا کہ وہ ورڈ اردو کا ورڈ ماموں ہے۔
وہ دونوں میاں بیوی میڈیکل کے شعبے میں کافی نامور ہو چکے ہیں۔ شوہر اس کا میڈیکل ریسرچ کے شعبے میں چلا گیا ہے اور وہ خود نیورو سرجن ہے۔ سسرال اس کا چونکہ بھارت ہے اس لیے تین بار وہ بھارت وزٹ کر چکی ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان بھی آجاؤ تو بولی" ہاں آؤں گی۔ وہاں ایک قبر ہے مجھے جانا ہے"۔ اس دن کئی سالوں بعد بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے پھر اس نے سوشل میڈیا بند کر دیا۔ جب اسے فرصت ہو تو واٹس ایپ آن کر لیتی ہے اور پھر کئی کئی ماہ آف یا ان ایکٹو رہتا ہے۔
اس نے ساری زندگی اب تک جو رابطہ رکھا صرف مجھ سے رکھا ہے۔ میری چھوٹی بہن سے وہ نہ کبھی ملی ہے نہ بات کی ہے۔ اس کی وجہ میں نے کبھی نہیں کریدی۔ شاید میں ہی اسے ملا تھا اور بات کا سلسلہ مجھ سے ہی شروع کیا تھا اس واسطے وہ مجھ تک ہی محدود رہی۔ ہمارے درمیاں جو مشترکہ کڑی تھی یعنی ہمارے والد وہ تو کب کے جا چکے۔ اس کے بعد جتنا تعلق باقی رہا ہے وہ بہن بھائی سے زیادہ دوستی یا کمیونیکشن کی وجہ سے تعلق ہے۔
جاتی سردیوں کے دن تھے جب آخری بار فون پر ہیلو ہائے ہوئی۔ پھر کسی دن اچانک فون ہی آئے گا۔ میں کرنا چاہوں تو آف رہتا ہے۔ وہ بند رکھتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، یہ آپ اینٹی سوشل ہو اس لیے سوشل میڈیا واٹس ایپ سے دور رہتی ہو یا جاب کی نوعیت اس قدر بزی ہے؟
نہیں، بس کبھی بھی مجھے سوشل میڈیا ایٹریکٹ نہیں کیا۔ اب تو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ میں اپنے بچوں کو وقت نہیں دے سکی۔ ان کو ان کی نانی اور دادی نے پالا ہے۔ جب وقت مل جائے تو کتابوں والی بندی ہوں۔ مجھے اپنی فیلڈ میں بہت ریسرچ ورک پڑھنا پڑتا ہے۔ ان سب غیر ضروری مشاغل کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے۔ نو دس سال بعد میں نے کوئی فلم دیکھی ہے آج۔ وہ بھی بچوں کے ساتھ ان کی فرمائش پر۔
اچھا۔ یعنی امریکا ایسے ہی گریٹ نہیں وہاں کے شہری بہت محنتی ہوتے۔
ہنستے ہوئے بولی: نہ نہ امریکی زیادہ تر ڈفرز ہیں۔ یہ ایویں ان کا بھرم بنا ہوا کہ محنتی ہیں۔ جو محنتی ہیں وہ امریکی سائنسدان ہیں یا کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ ہیں۔
پہاڑی دریا جب نیچے اُتر کر میدانوں میں پھیلتے ہیں تو ایکدم شانت ہو جاتے ہیں۔ اب زمانے کے جھکڑ چلنا بھی رک چکے ہیں۔ زندگی ایک پٹری پر آ چکی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں مگن ہے۔ بہن کینیڈا میں اپنی اور میں اپنی۔
خونی رشتے بھی جب تک نزدیک رہتے ہیں یا اک حصار میں رہتے ہیں یا کسی نہ کسی ناطے یا دھاگے سے بندھے رہتے ہیں تب تک ہی روز آمنا سامنا و گفت و شنید رہا کرتی ہے۔ انسان دور ہوتا ہے تو پھر مصروف ہوتا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اجتماعی بھی۔ حالات زندگی تحریر کرنے لگوں تو یہ ضحیم کتاب کا مواد ہوگا۔ گر کبھی زندگی نے مہلت دی تو بائیوگرافی لکھوں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی باتیں صرف کتاب کے لیے موزوں رہتی ہیں۔ سوشل میڈیا کا مزاج اور ہوتا ہے۔ یہ ایک چوراہا یا تھڑا ہے جہاں سے ہر طرح کا انسان گزرتا ہے اور وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جج کرتا یا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ کتاب کا قاری بالکل الگ مزاج کا ہوتا ہے۔ گر کبھی مہلت ملی تو۔۔ افتخار عارف کا ایک شعر میرا پسندیدہ بھی ہے اور حسب حال بھی معلوم ہوتا ہے۔
کہاں کے نام و نسب، علم کیا، فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
دمشق مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ
فغان قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا