Sunday, 30 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mere Abba Ji (4)

Mere Abba Ji (4)

میرے ابا جی (4)

پرانے وقتوں میں خبر پہلے نہیں پہنچتی تھی۔ پہلے دھول مٹی کا غبار نظر آتا۔ پھر رفتہ رفتہ گھڑ سوار دکھائی دیتا اور پھر خبر موصول ہوتی۔ خبر موصول ہونے تک انسان ایڑیوں کے بل کھڑا رہتا نجانے خبر اچھی ہے یا بُری۔ ابھی دھول مٹی کا غبار تھا۔ کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایڑی کے بل کھڑے رہنے کے دن تھے۔ بھاگ دوڑ میں گھنٹے بِیت رہے تھے۔ ہسپتال کی سپرٹ ملی فضا میں شب و روز ڈوبے تھے۔ لمبے سانس لینے کو ہسپتال کی حدود سے باہر نکلنا پڑتا۔

ان دِنوں سوشل میڈیا کا استعمال ہوا کرتا نہ مجھے کوئی جانتا تھا۔ سب سے بڑی مشکل خون کی فراہمی تھی۔ ابا کا بلڈ گروپ او منفی تھا جو کہ کمیاب ہوتا ہے۔ عملہ روز خون کی بوتل طلب کر لیتا۔ میں روز بلڈ بینکوں کے چکر کاٹتا۔ یہ بلڈ بینکس پانچ چھ سو روپوں کے عوض ایک بوتل دیتے وہ بھی اگر میسر ہو تو۔ ورنہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بلڈ بینک تک چکر کاٹتے دن تمام ہو جاتا۔

بے یقینی کی دھول میں اَٹا پانچواں دن ہسپتال میں بیت رہا تھا۔ شام ڈھلے اماں اور میں وارڈ سے نکل کر ہسپتال کی پارکنگ سے منسلک ایک چھوٹے سے باغ کی گھاس پر بیٹھے تھے۔ اس دن اماں کو کچھ تسلی ملی تھی۔ ابا کی صحت سنبھل رہی تھی۔ دوائیں اثر کر رہی تھیں۔ اچانک اماں کو خیال آیا

لاہور میں کیا ہوا تھا؟ تو نے بتایا نہیں مجھے۔ سب ٹھیک رہا تھا؟

جی امی، سب ٹھیک تھا۔ بتاتا کیا سب اچھے سے ملے تھے۔

اچھا۔ کون کون ملا تھا وہاں؟ (اماں جو پوچھنا چاہ رہی تھیں مجھے معلوم تھا۔ میں نے بھی اس وقت مزاق میں اس لئے جواب دیا کہ کچھ دیر کو ان کا موڈ بدل جائے)

آپ کی سوتن بھی تھیں۔ بہت پیار سے ملیں مجھے۔ اچھی لگ رہی تھیں۔

بغیرت، تیری مونچھیں نکل آئیں قد پورے بندے جتنا ہوگیا اور تجھے بات کرنی کی تمیز نہیں آئی۔ وہ ملی تھی تجھے؟ تیری بہن؟

ہاں ملی تھی۔ اچھے سے ملی تھی۔ کافی باتیں ہوئیں ہماری۔ اِدھر اُدھر کی بس نارمل۔

اور ابو تمہارے؟ کافی رونا دھونا ہوا کہ نارمل رہے؟

نہیں، بس نارمل ہی تھے۔

پھر اس کا رشتہ کہیں طے ہوا کہ نہیں ابھی؟

مجھے نہیں معلوم۔ مجھے اور ربیعہ کو کمرے سے نکال دیا تھا۔

میں تو چاہتی ہوں کہ ہو جائے۔ یہ اس کی شادی دیکھ لیں۔ مجھے معلوم ہے تیرے ابا کے پاس مہلت زیادہ نہیں ہے اور ان کا علاج مجھ سے ہو نہیں پائے گا۔ جانے سے پہلے یہ اس کی رخصتی میں شرکت کر لیں تو اچھا ہے۔

پھر کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ میں بھی کچھ نہیں بولا۔

تیرے پاس ان کا فون نمبر ہے؟

نہیں امی۔ ابو کے بٹوے میں تھا پرچی پر لکھا ہوا۔ مجھے نہیں معلوم۔

میں نے دیکھا ہے۔ مجھے بٹوے سے تصویر ملی ہے بس اور کچھ نہیں ملا۔ تجھے بھی نہیں معلوم؟

نہیں۔ مجھے نہیں معلوم۔

میں نہیں جانتا کہ ابا نے فون نمبر لکھی پرچی خود گما دی تھی یا کہیں اور سنبھال کر رکھ دی تھی۔ چونکہ ابا اب ہوش میں تھے تو ہم دونوں اٹھے اور وارڈ میں چلے گئے۔ ابا کے سرہانے پہنچ کر امی بولیں، لاہور والوں کو اطلاع کرنی ہے تو اس کو نمبر دیں۔ یہ پی سی او سے کال کر آئے گا۔

نہیں۔ کوئی ضرورت نہیں اس کی۔ میں ٹھیک ہوں اور ایک دو دن تک گھر چلے جائیں گے۔ کسی کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں۔ (ابا نے سخت لہجے میں منع کر دیا۔)

اگلے دن ابا کی میڈیکل رپورٹس آئیں۔ گھڑ سوار آتا دکھائی دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے خبر سنائی۔ "ان کے جگر کی حالت ایسی ہو چکی ہے جیسے بھڑوں کا چھتہ ہوتا ہے۔ بچے تم سمجھ رہے ہو ناں؟ ایک تو سکڑ چکا ہے اور پھر اس میں سوراخ ہو چکے ہیں۔ ان کا لیور ٹرانسپلانٹ کئے بنا کوئی حل نہیں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس حالت میں ٹرانسپلانٹ ہو بھی جائے تو بچنے کے کتنے چانسز ہوں گے۔ تم ان کو شیخ زید ہسپتال لاہور لے جاؤ۔ وہاں ڈاکٹر انوار اے خان سے کنسلٹ کرو۔ وہ جگر کے ماہر ہیں۔ وہی ٹھیک بتا سکیں گے۔ سمجھ گئے تم؟"

مجھے اور اماں کو یہ کلئیر ہو چکا تھا کہ ابا کے پاس وقت کم ہے۔ اس دن ہسپتال سے ابا کو ڈسچارج کر دیا گیا۔ جاتے جاتے ڈاکٹر صاحب نے پھر کہا "ان کو جتنا جلد ممکن ہو شیخ زید لے جانا۔ انوار اے خان سے اپوائٹمنٹ لے لینا"۔ اس شام ابا بظاہر خود چل کر گھر آئے اور سب نارمل لگنے لگا جیسے کچھ ہُوا ہی نہ ہو۔

تین چار دن بیتے۔ ایک دن اماں ابا کو لے کر اعلیٰ الصبح شیخ زید ہسپتال لاہور چلی گئیں۔ مجھے گھر میں بہن کے ساتھ چھوڑ دیا۔ رات گئے ان کی واپسی ہوئی۔ ڈاکٹر انوار نے کچھ ادویات لکھ دیں تھیں اور اینڈوسکوپی کی تھی۔ جگر کے ساتھ خوراک کی نالی بھی متاثر ہوئی تھی جس میں دو تین سوراخ ہو چکے تھے۔ ان سوراخوں کو اینڈو سکوپی کی مدد سے پیچ لگایا گیا اور پھر سب کچھ روٹین کے مطابق چلنے لگا۔ ابا چلتے پھرتے رہے۔ کافی دن نارمل گزرتے گئے۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ ربیعہ سے رابطہ کیا جائے۔ اس سے ملے ہوئے ڈیڑھ ماہ بِیت چکا تھا اور اس سارے عرصے میں کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔

ان دنوں ڈائل آپ موڈیم کا زمانہ تھا۔ انٹرنیٹ کیفے جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اُگ رہے تھے۔ گھر میں تو نہ فون رہا تھا نہ کمپیوٹر موجود تھا سو انٹرنیٹ کہاں سے آتا۔ ایک دن میں ایک کیفے چلا گیا جو گھر کے پاس ہی نیا کھُلا تھا۔ اس دن پہلی بار یاہو آئی ڈی بنائی۔ پہلی بار یاہو میسنجر استعمال کیا اور بمشکل ربیعہ کو میسنجر پر ایڈ کرنے کی درخواست بھیجی۔ انٹرنیٹ اس قدر سست تھا کہ یاہو میسنجر بار بار خود ہی لاگ آؤٹ ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد اس کو ای میل کر دی کہ میں نے آپ کو یاہو پر ایڈ کیا ہے وہ دیکھ لینا۔

ان دنوں انٹرنیٹ کیفے میں جانے کے لیے پیسے بھی بمشکل جمع ہو پاتے تھے۔ میرا چار دن بعد دوبارہ جانا ہوا۔ ربیعہ کی لمبی چوڑی ای میل آئی ہوئی تھی۔

"میں روز دیکھتی تھی کہ شاید تم نے مجھے ایڈ کرنا چاہا ہو۔ کافی دن دیکھتی رہی پھر سوچا کہ شاید تم نہ کرنا چاہتے ہو۔ میرے پاس تو تمہارا ای میل نہیں تھا۔ میں نے پھر دیکھنا چھوڑ دیا مجھے لگا تم رابطہ نہیں رکھنا چاہتے شاید میری کوئی بات بری لگی ہو یا شاید تم کو میں اچھی نہیں لگی ہوں۔ مجھے یہ بتاؤ اتنی دیر سے کیوں کیا ہے؟ کیا تم اس سارے عرصے کنفیوز رہے ہو سوچتے رہے ہو کہ کروں یا نہ کروں؟

میں مما کے ساتھ امریکا واپس آ گئی ہوں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ یہاں مجھے میڈیکل کی ایڈوانس ڈگری میں داخلہ مل گیا ہے۔ مجھے سپیشلائزیشن کرنا ہے۔ میرے اگلے چار سال انتہائی اہم اور بزی ہونے والے ہیں۔ پاکستان میں رشتہ طے نہیں ہو پایا۔ مجھے کوئی ڈھنگ کا نہیں لگا تھا اور پھر میں نے مما اور ماموں کو کہہ دیا کہ مجھے ابھی ایڈوانس سٹڈی کرنا ہے شادی نہیں کرنا۔ فادر نے بھی مجھے سپورٹ کیا ہے۔ آجکل میں دوسرے شہر شفٹ ہونے کی تیاری کر رہی ہو کیونکہ یونیورسٹی وہاں ہے۔

تم سناؤ کیا کر رہے ہو؟ پری میڈیکل کے پیپرز کب ہیں؟ ابا کیسے ہیں؟ اور تمہاری چھوٹی بہن؟ اس کی کوئی تصویر ہو تو مجھے ای میل کر دینا"۔

میں جواب میں لکھنا چاہتا تھا کہ اس سارے عرصے میں کیا کیا جھیلتا رہا۔ ہسپتالوں کے کتنے چکر لگے اور تمہارے ابا کی کیسی حالت ہے۔ میں اسے یہ سب نہیں لکھ پایا۔ یہ نہیں بتا پایا کہ میرے گھر انٹرنیٹ نہیں۔ مجھے پری میڈیکل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں بڑی مشکل سے رابطہ کرنے کو رقم کا بندوبست کرتا ہوں۔ اگلا رابطہ (ای میل) نجانے کب ہو۔ میں نے اسے لکھا "ہاں، بس سٹڈی میں مصروف رہتا ہوں۔ آپ جانتی ہو پری میڈیکل کتنا مشکل ہوتا ہے۔ ابا ٹھیک ہیں۔ بہن کی تصویر بھیج دوں گا۔ آپ کے فیوچر کے لیے بہت سی دعائیں ہیں۔ شادی کرنے کو عمر پڑی ہے ٹھیک فیصلہ لیا ہے۔ بس کچھ مصروفیات کی وجہ سے دیر سے رابطہ کیا ہے۔ آپ سٹڈی جاری رکھو میں بھی کچھ عرصے بعد ای میل کروں گا۔ پیپرز کی تیاری چل رہی ہے"۔

گھر کا ماحول دن بہ دن بگڑتا جا رہا تھا۔ ابا کو میں نے بتا دیا تھا کہ وہ واپس جا چکی ہے۔ ابا نے جواب دیا "ٹھیک کیا اس نے جو کیا"۔ علاج کے اخراجات پورے کرنے کو مجھے ایف ایس سی کی پڑھائی کے ساتھ ایک چمڑا بنانے والی کمپنی میں پارٹ ٹائم نوکری کرنا پڑی۔ ٹینری کا نام تھا خلجی سنز۔

کالج سے فری ہو کر شام 4 بجے چمڑے کی فیکٹری چلا جاتا اور رات دس بجے تک اکاؤنٹس دیکھتا۔ یہ کچا چمڑا پراسس کرنے کی ٹینری تھی۔ شام کو تیار شدہ کچا چمڑا ٹینری سے باہر جاتا جس کی گنتی اور لوڈنگ کی ذمہ داری میری ہوا کرتی۔ لوڈ شدہ ٹرک کا گیٹ پاس بنانا بھی میری ڈیوٹی تھی۔ رات آٹھ سے دس تک باہر سے کھالیں ٹینری میں آتیں ان کی گنتی کے بعد وصولی لینا بھی میرے ذمے ہوتا اور آخر میں اکاؤنٹس کی لیجر پر سارا حساب درج کرکے چھٹی کر جاتا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ چمڑے کی ٹینری میں کیمیکلز اور کچے چمڑے کی کتنی بدبو ہوتی ہے۔ شروع کے دنوں میں متلی آتی رہی پھر انسان عادی ہوتا جاتا ہے۔ سخت بدبو میں کام کرنا مجبوری تھی کہ والدہ کی تنخواہ تو ادویات اور ہسپتالوں کے اخراجات میں صرف ہو جایا کرتی۔

گھر آتے رات کے گیارہ بج جاتے۔ ایک گھنٹہ کالج کا کام دیکھتا پھر سو جاتا۔ صبح تین بجے اٹھ کر مجھے ڈسٹری بیوٹر سے اخبار لینا ہوتی جسے صبح کے نو بجے تک مجھے اپنی سائیکل پر گھروں اور دفاتر میں تقسیم کرنا ہوتا۔ پھر کالج کا وقت ہو جاتا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ دن میری زندگی کے سخت ترین دن ہیں یہ گزر جائیں گے۔ ایف ایس سی کے بعد ڈگری کروں گا تو کہیں بہتر نوکری مل جائے گی۔ دن گزرتے رہے۔ ابا کی اینڈوسکوپی چلتی رہی۔ ان کے ہسپتالوں کے چکر لگتے رہے۔ اماں چھٹی لے کر ابا کو لاہور شیخ زید لے جاتیں۔ کبھی کبھی خون آلود کپڑوں کے ساتھ واپسی ہوتی جو سفر میں ابا کی قے کے نشانات ہوتے۔

دن ماہ و سال میں بدلتے رہے۔ میں پری میڈیکل میں فیل ہوگیا۔ اس سارے عرصے میں نے ربیعہ سے یاہو پر دو تین بار ہی رابطہ کیا۔ اس کے جواب بہت لمبے عرصے بعد آتے۔ سوشل میڈیا وہ نہیں دیکھتی تھی اور مجھے کہہ چکی تھی کہ اس کا وقت پڑھائی میں مصروف ہونے والا ہے۔ میں بھی کاوش روزگار سے الجھ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ ICS کرنے میں مشغول ہوگیا۔ دو سال اسی طرح بیت گئے۔ آئی سی ایس میں ٹاپ کرنے کے بعد میں نے جامعہ کراچی کے بی ایس آنرز میں داخلہ لے لیا۔ کراچی یونیورسٹی کا وہ پہلا بی ایس آنرز کا بیچ تھا۔ مجھ پر ڈین نے یہ شفقت کی کہ مجھے ریگولر کلاسز سے رخصتی دے دی۔ سمسٹر کے امتحان دینے چھ ماہ میں ایک بار صرف کراچی جانا ہوتا۔

سنہ 2005 کے اوائل میں میں کراچی تھا۔ کلاس فیلوز کے فلیٹ میں ٹھہرتا تھا اور امتحان دے کر واپس سیالکوٹ چلا جاتا تھا۔ ڈگری میں نے سیلف سٹڈی پر کلئیر کی۔ ان دنوں میٹرولا کا موبائل آ چکا تھا مگر سم میں بیلنس ختم رہتا تھا۔ موبی لنک کے پیکجز بہت مہنگے ہوتے تھے۔ میں سمسٹر کے پیپرز دینے گیا تھا۔ اماں کی کال آئی۔ ابا شیخ زید میں داخل تھے اور اماں نے کہا تھا۔

تو آ جا۔ پیپرز پھر دیکھ لینا۔ پیپرز دیتے یہ دنیا سے چلے گئے تو ساری عمر پچھتاوا رہے گا۔

میں نے اسی وقت تیز گام ریل پکڑ لی۔ لاہور اترتے ہی سیدھا ہسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر انوار اے خان نے مجھے جو کہا وہ مجھے آج تک نہیں بھولتا۔

"تمہارے باپ کو ہم نے زکوۃ فنڈ سے علاج کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے کہا ان پر زکوۃ نہیں لگتی۔ ہمارے پاس بہت سی سید فیملیز آتیں ہیں وہ بھی انکار کر دیتی ہیں مگر یوں تو علاج نہیں ہو پائے گا۔ جگر کی پیوند کاری مہنگا علاج ہے۔ چائنہ امریکا اور بھارت سے تم افورڈ نہیں کر سکتے اور اب بیٹا یہ لاعلاج ہیں۔ اب وہ ہو بھی نہیں سکتا وہ سٹیج گزر چکی ہے۔ میرا مشورہ ہے ان کو گھر لے جاؤ۔ ان کو اپنے بچوں اور اپنی فیملی میں سکون سے مرنے دو۔ یہ ان کی آخری حالت ہے۔ اگر ہاسپٹل سے لاش لے کر جانا چاہو تو جیسے تمہاری مرضی"۔

اسی شام ایمبولینس میں ابا کی زندہ لاش لے کر گھر آ گئے۔ ان کو ہلکی سی ہوش آتی اور پھر قے آ جاتی۔ پھر بیہوشی کا لمبا وقفہ اور پھر خون بھری قے۔ بس پانچ منٹ کو ان کی طبیعت ذرا سیٹل ہوئی۔ ان پانچ منٹوں میں مجھ سے اتنا ہی کہا "اپنی ماں اور بہن کا خیال رکھنا اور اب تم کو بڑا بننا ہوگا۔ کوئی تمہارا رشتے دار نہیں ہے۔ کسی سے کچھ نہ مانگنا"۔ بس ایسا ہی کچھ اور کچھ ایسی باتیں جو سمجھ میں نہ آنے والی تھیں۔ ان پر یہ دورہ پڑتا تھا وہ بہکی بہکی باتیں بھی کرنے لگتے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان کے جسم میں گندا خون دماغ کو جا رہا تھا جس نے سبب hallucination ہوتی تھی۔

رات مشکل سے بسر ہوئی۔ اماں اور بہن ساری رات ان کے سرہانے سورہ یاسین پڑھتیں رہیں۔ اگلی صبح غنودگی طاری ہوئی اور اس شام چھ بجے غنودگی میں انتقال ہوگیا۔ مجھے چونکہ معلوم ہو چکا تھا اس واسطے میں قبر کفن کے انتظامات کرنے گھر سے باہر نکل گیا تھا۔ بڑا مشکل وقت ہوتا ہے جب باپ کی سانس ابھی چل رہی ہو مگر بیٹے کو سفر آخرت کی تیاری کرنا پڑ جائے۔ مجھے ساری عمر ایک ہی کمی کھَلتی رہی ہے اور وہ یہ کہ میرا کوئی بھائی ہونا چاہئیے تھا جو میرا بوجھ بانٹ سکتا۔

پہلے دھول مٹی کا غبار نظر آتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ گھڑ سوار دکھائی دیتا اور پھر خبر موصول ہوتی ہے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Haqiqi Absolutely Not

By Muhammad Riaz