Mere Abba Ji (3)
میرے ابا جی (3)
یوں نہیں ہوتا کہ آسودہ گھروں میں غربت راتوں رات پنجہ گاڑ لے۔ یہ شام کی مانند دھیرے دھیرے آنگن میں اُترتی ہے اور اپنی سیاہی پھیلا کر رات میں ڈھلنے تک کافی وقت لے لیتی ہے۔ جب رات بن کر چھا جائے پھر سویرا بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ اندھیرے کو پار کرنے میں ایک نسل لگ جاتی ہے۔ ابا کے عروج کو زوال میں ڈھلتے بھی ایک ڈیڑھ سال لگا تھا۔ امارت گئی تو رفتہ رفتہ گھر کا ماحول بھی بدلنے لگا۔ کاروبار ڈوبا تو ہولے ہولے کچن پر اثرات آنے لگے۔ اماں کو گھر سنبھالنے کے واسطے سرکاری نوکری کرنا پڑی۔ گزر بسر تنخواہ پر ہونے لگا۔ وہ خاندان جس نے دولت کی ریل پیل دیکھی ہو اس کے لیے غربت موت کی چکی ہوتی ہے۔
وقت کے ساتھ ابا کو جگر کا سرطان لاحق ہوا اور تشخیص ہونے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ابا کو خون کی قے آئی۔ دس بارہ دن بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا جگر ٹھیک کام نہیں کر رہا۔ ادویات کے اخراجات کافی تھے۔ اوپر سے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکر لگنے لگے۔ پھر گھر کی قیمتی اشیاء رخصت ہونے لگیں۔ ہوم اپلائنسز کی بہتات تھی جو ابا نے جاپان سے منگوا رکھیں تھیں۔ کیا کیا نہیں تھا۔ سب جاتا رہا۔ اس زمانے میں نیشنل کا ونڈر اے سی تھا۔ ہمارے گھر وہ لگا ہوتا۔ بجلی کے بل تب بھی برداشت سے باہر تھے۔ کاروبار بند ہوا تو اے سی بھی بند ہوا۔ صرف گرما کی حبس بھری راتوں میں ایک دو گھنٹہ چلتا تاکہ کمرہ ٹھنڈا ہو سکے اور پھر ایک دن وہ بھی بک گیا۔ میں بتا رہا تھا کہ گھر میں سوائے ایک نادر قرآن، ایک فریج، ضروری کراکری اور صوفہ کرسیوں بیڈز کے سوا کچھ خاص نہیں بچا تھا۔ عرصے بعد میں ایسے گھر میں موجود تھا جس کا کمرہ ٹھنڈا یخ تھا۔
دروازے جس لڑکی نے کھولا تھا وہ مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور وہیں بُت بن گئی۔ ابا نے شاید اسے بچپن کی شباہت سے پہچان لیا یا شاید خون از خود شناخت کروا دیتا ہے۔ لڑکی دو قدم آگے بڑھی اور اس نے ہینڈ شیک کرنے کو ہاتھ بڑھا دیا۔ وہ جس ماحول میں پلی بڑھی تھی اس کے مطابق پیش آ رہی تھی۔ ابا نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے گلے لگا لیا اور وہیں گلی میں کھڑے کھڑے دونوں رونے لگ گئے۔ یہ منظر میرے لیے عجیب بھی تھا اور میں خود عجیب کیفیت کا شکار تھا۔
دو چار منٹ کے لیے گلی افسردہ رہی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس موقعہ پر ابا کو کیا کہنا ہے اور کیسے یہ رونا ختم کروا سکتا ہوں۔ اسی سوچ میں گم تھا کہ اندر سے وہی شخص نکلا جو ہمارے گھر آیا تھا۔ جو میری بہن کا ماموں تھا۔ اس نے آتے ہی لڑکی کو الگ کیا اور ابا بھی اس کو دیکھ کر قدرے سنبھل گئے۔ دعا سلام ہوئی۔ اس لڑکی نے ابھی تک مجھ سے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ مجھے یاد ہے نہ اس نے مجھ سے سلام لی تھی اور نہ میں نے آگے بڑھ کر اس سے سلام لی تھی۔ میں اسے گھور کر دیکھ رہا تھا اور وہ مجھے گھورتی رہی تھی۔ اسی سلسلے کا شکار رہتے ہم گھر کے اندر داخل ہو گئے اور مدت بعد میں ایسے کمرے میں بیٹھا جو ویسا ہی ٹھنڈا تھا جیسا ہمارے گھر میں کبھی ہوا کرتا تھا۔
کمرے میں ایک تو میری بہن کے ماموں تھے اور ان کی بیگم، ایک بہن کی نانی تھیں جو کافی عمر رسیدہ تھیں، ابا تھے اور میں تھا۔ اس لڑکی کی امی نہیں تھیں۔ شاید وہ سامنے آنا نہیں چاہتیں تھیں۔ ابا نے تحائف اپنی بیٹی کو دئیے اور بولے "جلدی میں بس یہی لا سکا، کچھ دن پہلے معلوم ہو جاتا تو ڈھنگ کا کچھ لے آتا"۔ لڑکی نے انگریزی میں شکریہ ادا کیا۔ اس کا لہجہ امریکن تھا اور جو پہلا جملہ وہ بولی وہ انگریزی زبان کا تھا۔ ابا اپنے زمانے کے گریجوئیٹ اور جہاں گرد تھے۔ انگریزی ان کی اچھی خاصی بہتر تھی۔ جب کاروبار عروج پر تھا وہ جاپان، انگلستان اور مڈل ایسٹ ممالک کے دورے کر چکے تھے۔ سن کر انگریزی میں بولے "تم کو اردو بولنا آتی ہے یا نہیں سیکھی؟"۔ لڑکی نے ہنستے ہوئے جواب دیا " آتی ہے۔ بولتی کم ہوں"۔ اس کی نانی بولیں"اس کو اردو کم آتی ہے۔ وہاں یہ گھر میں انگلش بولتے ہیں۔ اس کا باپ (سٹیپ فادر) بھی انگلش بولتا ہے اس کی تو ہمیں بھی سمجھ نہیں آتی"۔
ملازم چائے پانی لانے لگے۔ یہ خوشحال فیملی تھی۔ اس شام تادیر وہ لڑکی میرے ابا کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ وہ باتیں نجی نوعیت کی ہیں اس لیے یہاں ذکر نہیں کروں گا۔ تئیس برس بعد کوئی لڑکی اپنے باپ کو ملے تو اس سے کیا کہہ سکتی؟ وہی کہ ایسا کیا ہوا۔ ایسا کیوں ہوا۔ اور آپ نے رابطہ بھی نہیں کیا۔ دو ڈھائی گھنٹے میں وہاں بس سب کی شکلیں دیکھتا رہا۔ اس دوران ملازم آتے جاتے رہے۔ کھانے کو کچھ نہ کچھ لاتے رہے۔ اس لڑکی کی والدہ نہیں آئیں۔ میرے اندر بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا ابا اور وہ لڑکی اب کافی مل چکے ہیں اب ہمیں یہاں سے واپس نکلنا چاہئیے۔
مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ میری بہن مجھے اگنور کر رہی ہے۔ وہ بس مجھے دیکھتی اور پھر نظریں گھما لیتی۔ وہ خوش تھی۔ ابا بہت خوش تھے۔ ان دونوں کی آپسی باتیں ختم نہ ہونے والا سلسلہ لگ رہی تھیں۔ اس کے ماموں مامی اور نانی بھی ابا کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے۔ پرانیں باتیں تھیں جو میری سمجھ سے باہر تھیں۔ ان لوگوں کے نام آتے جن سے میں شناسا نہیں تھا۔ پھر ابا نے اچانک اس کی نانی سے پوچھا "مجھے آپ کے منتخب رشتوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ بس مجھے بتا دیں کہ کونسی فیملی ہے، کہاں ہے، لڑکا کیا کرتا، میں ان کا معلوم کروا سکوں"۔
اس کی نانی نے جواب دینے کے بجائے ملازم کو بلایا۔ ملازم آیا تو بولیں"جا کر رخشندہ کو بلا۔ اسے کہہ ذرا آئے ضروری بات طے کرنی ہے"۔ کچھ منٹس گزرے ایک عورت اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلام لی۔ میں نے اٹھ کر اس سے سلام لی۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے بولی "بیٹھ جاؤ"۔ وہ سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔ سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ میں انہیں غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اپنی بہن کو دیکھتا۔ دونوں میں از حد مشابہت تھی۔ اتنے میں اس کی نانی بولیں"ربیعہ، تم اپنے بھائی کو لان دکھاؤ۔ دھوپ اتر چکی ہے۔ جاؤ بیٹا باہر گھومو ہم ذرا ضروری بات کر لیں"۔
اس نے میری جانب دیکھا۔ میں نے ابا کی جانب دیکھا۔ ابا نے مجھے دیکھ کر کہا "جاؤ"۔ وہ اُٹھی تو میں بھی اُٹھ گیا اور ہم دونوں چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئے۔ باہر نکلتے ہی سامنے ایک کشادہ لان تھا جس میں کرسیاں دھری ہوئیں تھیں۔ ملازم گھاس پر تازہ تازہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے پانی بند کیا۔ ہم دو اجنبی چلتے چلتے کرسیوں کی جانب گئے اور دونوں نے اپنی اپنی کرسی درست کی۔ آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
پہلی بار اس نے مجھے مخاطب کیا۔
تمہارا نام مہدی ہے؟
ہاں۔ سید مہدی بخاری۔ میں نے اس کی جانب دیکھے بنا نیچے گھاس پر نظریں ٹکائے جواب دے دیا۔
کس گریڈ میں ہو کیا پڑھ رہے ہو؟
میں پری میڈیکل پارٹ ٹو میں ہوں (ابا نے مجھے پری میڈیکل رکھوا دیا تھا ان کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ وہ الگ بات کہ میں پاس نہیں کر پایا اور بائیو، کیمسٹری میں اڑ گیا۔ پھر ICS کیا جس میں فرسٹ پوزیشن لے گیا)۔
اچھا؟ تم بھی ڈاکٹر بنو گے؟ میں نے ڈگری مکمل کر لی ہے۔ اب جاب کر رہی ہوں۔
ہاں مجھے معلوم ہے۔ آپ کے ماموں گھر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا۔
کچھ دیر کو خاموشی چھا گئی۔ وہ نجانے کیوں مجھے ٹکٹکی باندھے مسلسل گھورنے لگی۔ کافی دیر گھورتی رہی۔ میں نظریں چرائے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ پھر یکدم بولی
"لُک، مجھے نہیں پتہ تم کو کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ مجھے لگ رہا ہے تم کو میں عجیب لگ رہی ہوں۔ میرے فادر نے مجھے سگی بیٹی سے بڑھ کر چاہا ہے۔ مجھے اچھی تعلیم دلوائی ہے۔ میں نے خود ان کو اپنا اصلی باپ جانا ہے۔ انہوں نے مجھے کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میری ماں کی ان سے کوئی اولاد نہیں ہو سکی۔ میں عالیشان ماحول میں پلی بڑھی ہوں۔ مجھے کبھی نہیں لگتا تھا کہ مجھے کبھی اپنے رئیل فادر کی کمی محسوس ہوگی یا میں ان سے ملنا چاہوں گی۔ بات سمجھ آ رہی ہے میری؟"۔ (یہ سب اس نے انگریزی زبان میں کہا اور اس کو لگا شاید میں سمجھ نہ پا رہا ہوں)۔
ہاں۔ سمجھ آ رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے اچانک محسوس ہونے لگا کہ میرے جنیاتی فادر کون ہیں۔ کیسے ہیں۔ کس حال میں ہیں۔ میں نے اپنی ماں سے ذکر کیا کہ مجھے ہو سکے تو ان کو ایک بار دیکھنا ہے ملنا ہے۔ میری ماں نے مجھے بالکل منع نہیں کیا اور میرے باپ نے مجھے پاکستان بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے والدین میری شادی کرنے کو فکرمند ہیں۔ اسی بہانے مجھے پاکستان بھی دیکھنا تھا۔ جو میری برتھ لینڈ ہے۔ مجھے پتہ چلا کہ دوسری عورت سے میرا ایک بھائی اور بہن بھی ہے (میری اور میری سگی بہن کی بات) تو مجھے سچ میں اچھا لگا۔ میں بس بات کرنے سے جھجھک رہی تھی مجھے کیا معلوم کہ تم کو کیسا لگ رہا ہو۔ ہو سکتا تم کو غصہ ہو کہ یہ ہماری لائف میں اچانک کیا کرنے آ گئی ہے۔
نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے کوئی غصہ نہیں ہے۔ میری بہن کو بھی کوئی غصہ نہیں ہے۔ مجھے خود آپ کے بارے کچھ سال پہلے معلوم ہوا ہے۔ میری بہن نے تو یہ کہا تھا کہ واپس آ کر مجھے بتانا وہ دیکھنے میں کیسی ہے۔ اسے کیوں آپ پر غصہ ہوگا بھلا۔
وہ سن کر ہنسی اور بولی "تو پھر فرینڈز؟" اور ایسا کہتے اس نے ہینڈ شیک کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے ہاتھ ملا تو لیا مگر ان دنوں میں شدید مذہبی رجحان رکھتا تھا۔ نوجوانی میں انسان ایسا ہوتا ہے۔
آپی آپ نے ابا کو بھی ہینڈ شیک کرنا چاہا تھا۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے۔ آپ بڑی بہن ہو۔ مجھے خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کر۔
اوہ۔ ہاں۔ یہ میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ مجھے تو بھائی کے سامنے آتے ڈوپٹہ بھی لینا چاہئیے تھا۔ میں تو ٹریک سوٹ میں بیٹھ گئی۔ ڈوپٹہ لے آؤں؟ (پتہ نہیں وہ مزاق کر رہی تھی یا سنجیدہ تھی)
نہیں۔ خیر ہے۔ ویسے ہی کہہ رہا تھا۔
تو تمہاری چھوٹی بہن کیسی ہے؟ اس سے دوستی ہے تمہاری؟
ہاں، وہ بہت اچھی ہے۔ دوستی ہے ہماری۔
تمہاری اماں بھی اچھی ہوں گی۔ میری اماں بھی اچھی ہیں۔
ہاں۔ میں نے دیکھا ان کو ابھی۔ اچھی ہیں۔
پھر کچھ دیر خاموشی کا وقفہ آیا۔
تم جانتے ہو میرا امریکی نام کیا ہے؟ ربیعہ فاطمہ۔ میرے فادر نے مجھے کاغذات میں اپنی سگی بیٹی ڈکلئیر کرنا تھا۔ یہ ضروری تھا۔ لیکن میں اپنا نام دوستوں کو سیدہ ربیعہ فاطمہ بخاری ہی بتاتی ہوں۔ کیونکہ میں ہوں تو ان کی ہی بیٹی اور تمہاری بہن۔
ہاں۔ اس اس سے کیا فرق پڑتا کاغذات میں کیا ہے۔ حقیقت تو حقیقت ہے۔
پھر خاموشی کا وقفہ آیا۔۔
ایک بات بتا سکتے ہو؟ میری امی کہتی ہیں کہ تمہارے ابا بہت مذہبی انسان تھے۔ کٹر شعیہ تھے۔ اس وجہ سے وہ مجھ پر بھی اپنا مسلک نافذ کرنا چاہتے تھے۔ کیا ابو واقعی سخت مذہبی قسم کے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے؟
مجھے بھی یہی معلوم ہے کہ تمہاری امی بھی سخت اہلحدیث خاندان سے ہیں اور اسی قسم کے مسائل دونوں طرف سے پیدا ہوئے۔ میں نے سنا تھا تمہارے کان میں آذان دینے کے مسئلے پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ ابا کہتے تھے میری بیٹی ہے آذان شیعہ والی ہوگی اور تمہاری امی کہتی تھیں میری ہے اذان میرے والی ہوگی۔ جہاں تک تمہارے سوال کا تعلق ہے مجھے نہیں لگتا کہ ابو مذہبی نوعیت سے اتنے سخت انسان ہیں۔ ہاں وہ مذہبی معاملات میں بہت حصہ لیتے تھے جب تک وسائل تھے ان کا بزنس چلتا تھا۔ میری امی کو بھی یہی گلہ رہا کہ جو کماتے مذہبی محافل پر لگا دیتے تھے۔ مگر مجھے کبھی یوں نہیں لگا کہ وہ متشدد قسم کے مذہبی انسان رہے ہوں۔
ہاں۔ مجھے مل کر لوگوں کی instinct کے بارے کچھ محسوس ہو جاتا ہے۔ مجھے بھی ایسے تو نہیں لگے ہیں۔ کون جانے سچ کیا ہے۔ کس کا سچ سچ ہے اور کس کا سچ جھوٹ۔
ہاں۔ اب کرید کر ملنا بھی کیا ہے؟
ہاں۔ چھوڑو۔ ویسے ہی خیال آیا تو پوچھ لیا۔
پھر تم کیا بنی ہو؟
ہاہاہاہاہاہاہا۔ میں بس ڈاکٹر بنی ہوں۔ میرے فادر ڈاکٹر اسرار کو سنتے ان کی مانتے ہیں۔ میں کہتی ماما پاپا کیری آن۔ جو جہاں خوش ہے وہاں خوش رہے۔
پھر بولی
تم ڈاکٹر بننا۔ ابو افورڈ کر سکتے ہیں کنگ ایڈورڈ سے ڈگری لو۔ میں نے سنا ہے پاکستان میں وہ سب سے اچھی میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ پڑھائی پر فوکس کرنا۔ ڈگری بہت مشکل ہونے والی ہے۔ آسان نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی ڈگری کے آخری تین سال ایک کمرے میں بند ہو کر پڑھتے گزارے ہیں پھر جا کر کامیاب ہوئی ہوں۔
ابا افورڈ کر سکتے ہیں؟ کنگ ایڈورڈ کو؟
ہاں۔ کیوں نہیں کر سکتے کیا؟
مجھے اس کی باتوں سے لگا کہ اسے ابا کے حالات یا ہمارے حالات کے بارے کچھ معلوم نہیں ہے اور شاید اس کے ماموں نے بھی واپس آ کر اسے حالات نہیں بتائے۔ اس کو وہی ماضی معلوم ہے ابا کا۔ مجھے اپنے حالات بتاتے اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں نے اپنا اور اس کا بھرم رہنے دیا۔
ہاں۔ کر سکتے ہیں۔ پوری کوشش کروں گا۔
اس شام باتوں باتوں میں رات پھیل گئی۔ ربیعہ کے ساتھ باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ جتنا وہ شروع میں ریزرو تھی جب بولنے پر آئی تو بولتی ہی گئی۔ کبھی ہنسی کبھی اداسی۔ اس سے بات کرتے میں وقت بھول گیا۔ پتہ نہیں کب رات پھیلی اور پھر ملازم ہمیں بلانے آ گیا۔ رات دس بجے وقت رخصت آیا۔ ابا ملتے وقت اداس تو تھے ہی میں بھی عجیب کیفیت کا شکار ہو چکا تھا۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ابا کی اس سے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میری بھی اس سے پہلی اور آخری ملاقات ہو رہی۔ میں سوچتا ہوں مجھے کم از اکم اسے یہ بتا دینا چاہئیے تھا کہ تمہارے باپ کو جگر کا کینسر ہو چکا ہے شاید وہ زیادہ عرصہ جی نہ پائیں۔
رخصت سے قبل وہ مجھے انتظار کرنے کا کہہ کر اندر بھاگی۔ پھر بھاگم بھاگ باہر آئی اور ایک کاغذ مجھے تھماتے بولی "یہ میرا یاہو آئی ڈی ہے۔ یاہو میسنجر پر ایڈ کر لینا اور یہی میری ای میل ہے۔ "(ان دنوں یاہو میسنجر چلتا تھا)۔ گلی میں ٹانگہ منگوا لیا گیا تھا۔ اس پر سوار ہوتے میں نے گلی کا موڑ مڑنے سے قبل آخری بار پلٹ کر دیکھا۔ وہ گلی میں ہی کھڑی ٹانگے کو جاتا دیکھ رہی تھی اور ٹانگہ جدائی کا موڑ مڑ گیا۔
لاہور کا بادامی باغ لاڑی اڈہ اتنا ویران تو نہیں تھا مگر اس رات لگ رہا تھا۔ ابا بھی خاموش تھے۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ بمشکل ایک بس ملی جس میں سیٹ نہیں تھی۔ ہم دونوں کو گوجرانوالہ تک کھڑے ہو کر آنا پڑا۔ گوجرانوالہ کچھ سواریاں اُتریں تو ابا کو سیٹ مل گئی۔ رات دو بجے گھر داخل ہوئے۔ اسی صبح چار بجے ابا کو خون کی ایسی قے ائی کہ سارا بستر سرخ ہوگیا۔ صبح پانچ بجے وہ سول ہسپتال سیالکوٹ کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہو گئے۔ مجھے لگتا ہے واپسی کا تکلیف دہ سفر ان کو اندر سے ہلا گیا تھا۔
جاری ہے۔۔