Mere Abba Ji (2)
میرے ابا جی (2)
قرآن پاک کا ایک نادر نسخہ ہمارے گھر تھا۔ بظاہر وہ کوئی ایسا قیمتی نہیں لگتا تھا مگر ابا کے بقول اس کے ہر ورق کے حاشیوں پر ہاتھ سے کشیدہ کاری ہوئی تھی اور باریک تاریں جن پر سونے کا پانی چڑھا تھا ان سے ہر ورق کی حاشیہ برداری یوں کی گئی کہ ہر ورق ایک فریم بن گیا۔ کاغذ بھاری اور قدیمی تھا۔ وزن میں وہ نسخہ اچھا خاصہ بھاری تھا۔ ہمیں اسے چھونے کی ممانعت تھی۔ ابا اماں کا خیال تھا کہ بچے اس کو عام قرآنی نسخہ سمجھ کر برباد نہ کر دیں۔ ایک دن مارے تجسس کے میں نے وہ کھول کر دیکھنا چاہا۔ اس کے اندر سے ایک تصویر گر پڑی جو میرے ہاتھ لگ گئی۔ وہ دو ڈھائی سالہ چھوٹی بچی کی تصویر تھی اور وہ میری چھوٹی بہن کی تصویر نہیں تھی۔
حیرت کے مارے میں سب بھول گیا اور بھاگم بھاگ ابا کے سامنے جا کر تصویر لہراتے بولا "ابو یہ کون ہے؟"۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ابا نے نجانے کتنے سالوں بعد وہ تصویر دیکھی تھی۔ ایک لحظہ وہ تصویر کو گھورتے رہے اور پھر ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں کھڑے کھڑے کانپنے لگا کہ اب مار پڑے گی۔ یقیناً کوئی ایسی بات ہے اور کچھ گڑبڑ ہے۔
ابا جی کی جیب میں ہمیشہ ایک رومال رہا کرتا تھا۔ یہ ان کی عادت تھی۔ رومال وہ قمیض کی پہلو والی جیب میں رکھتے تھے۔ انہوں نے رومال نکالا۔ آنکھیں پونچھیں اور پھر اٹھ کر میرے پاس آئے۔ تصویر کو تھاما۔ پھر غور سے دیکھا۔ پھر بولے"یہ تمہیں کہاں سے ملی ہے؟"۔ میں جو ڈرا ہوا کھڑا تھا مجھے اس وقت لگا کہ اب سب سچ بولنا چاہئیے شاید مار کم پڑے۔ میں نے بتا دیا کہ قرآن مجید دیکھنا چاہا تھا اس میں سے گر پڑی تھی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ دراصل وہ تصویر میری اماں نے محفوظ رکھنے کو وہاں رکھ چھوڑی تھی یا شاید ابا سے چھپانے کو۔ جو بھی سبب رہا ہو مگر ابا نے وہ تصویر پھر اپنے بٹوے میں رکھ لی۔ اور تادم آخر وہ ان کے بٹوے میں ہی رہی۔
اس دن مجھے معلوم ہوا کہ میری کوئی بہن بھی ہے۔ ابا کی دوسری شادی سے ہے۔ اس کا نام سیدہ ربیعہ فاطمہ بخاری ہے۔ مجھ سے چھ سال بڑی ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ امریکا جا چکی ہے اور اب سالوں سے ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ وقت گزرتا رہا۔
میں ایف ایس سی کے پارٹ ٹو میں تھا۔ عمر ہوگی انیس سال۔ ایک دن بھری گرمیوں کی دوپہر کو ایک شخص گھر آیا۔ ابا گھر پر موجود نہیں تھے۔ اس نے میرے ابا کا نام لے کر پوچھا تو میں نے کہہ دیا وہ گھر نہیں ہیں۔ اس نے چند منٹ گلی میں کھڑے گزارے اور پھر بیل بجا دی۔ میں نے پھر دروازے پر جا کر کہا ابو گھر نہیں ہیں۔ بولا "مجھے بہت ضروری کام ہے بیٹا۔ تم ان کے بیٹے ہو؟ میں لاہور سے آیا ہوں اور بڑی مشکل سے شاہ صاحب کا ایڈریس معلوم کیا ہے۔ مجھے ان سے بہت ضروری ملنا ہے۔ بہت اہم کام کے سلسلے میں آیا ہوں"۔ امی نے سنا تو بولیں"تم بیٹھک کھول کر بٹھاؤ ان کو اندر اور جا کر معلوم کرو تمہارے ابا کہاں ہیں"۔ مہمان کو اندر بٹھا کر میں باہر نکل گیا۔ ابا کا محلے میں ایک ہی ٹھکانہ ہوتا بیٹھنے کا وہ ان کا دوست تھا۔ وہ ایک کارخانہ تھا جہاں سرجیکل کا سامان تیار ہوتا تھا۔
ابا وہیں بیٹھے مل گئے۔ ان کو بتایا۔ ہم دونوں چلتے چلتے گھر پہنچے۔ بیٹھک میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔ وہ شخص اٹھ کر ملا۔ اس دن معلوم ہوا کہ وہ آنے والا مہمان دراصل ابا کا سابقہ سالا ہے اور میری بڑی بہن کا ماموں ہے۔ وہ گھر تلاش کرتا بمشکل پہنچا تھا۔ اس نے ابا کو اپنے آنے کا مقصد بتایا۔
"ربیعہ پاکستان آئی ہوئی ہے۔ اس کی اماں بھی ساتھ ہیں۔ میرے گھر لاہور میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ آنے کا مقصد یہ ہے کہ ربیعہ نے امریکا کی ٹاپ کی میڈیکل یونیورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری لے لی ہے۔ وہ ڈاکٹر بن چکی ہے۔ اس کی اماں چاہتی ہیں کہ اب اس کی شادی کر دی جائے۔ اسی سلسلے میں پاکستان آئے ہیں۔ ہم نے کچھ مناسب رشتے دیکھ رکھے ہیں مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی بیٹی ہے۔ اگر آپ کی نظر میں اس کے جوڑ کا مناسب رشتہ ہو تو آپ کر سکتے ہیں یا بتا سکتے ہیں۔ بیٹی کی اماں اور بیٹی خود یہ چاہتی ہے کہ وہ سید زادی ہے اس لیے اگر آپ سادات میں اسے بیاہنا چاہیں تو بتا دیں ہم وہاں دیکھ لیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ آپ جب چاہیں میرے غریب خانے لاہور تشریف لے آئیں"۔ (مجھے اب حرف نہ حرف تو سب یاد نہیں مگر گفتگو کا مفہوم یہی تھا)۔
ابا نے مجھے چائے پانی لانے کو کمرے سے باہر جانے کا کہا۔ جیسے ہی میں نکلا اماں دروازے کے پاس ہی کھڑیں ملیں۔ مجھے پوچھنے لگیں" کیا بات ہے؟"۔ میں نے ساری بات کھڑے کھڑے بتا دی۔ اماں نے سن کر کہا "اچھا ٹھیک ہے۔ تم چائے اندر لے جاؤ"۔
بیٹھک والے کمرے میں واپس داخل ہوا۔ ابا نے اس شخص کو کہا کہ میری نظر میں ایسا کوئی رشتہ موجود نہیں۔ وہ ڈاکٹر بن چکی ہے اتنا پڑھا لکھا لڑکا اس کے برابر کا سادات سے ڈھونڈنے میں وقت لگے گا۔ آپ نے جو مناسب رشتے دیکھ رکھے ان کو دیکھ لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بس یہ کوشش کر لیں کہ رشتہ سید فیملی سے ہو اور مجھے اس فیملی سے متعلق آگاہ کر دیں۔ میں اپنے تئیں ان کی دیکھ پڑتال کر لوں برائے تسلی اور میں دو دن بعد لاہور ملنے آؤں گا۔ گھنٹہ دو بعد وہ شخص ایڈریس اور پی ٹی سی ایل فون نمبر لکھ کر دے گیا اور رخصت ہوگیا۔
اس کے جاتے ہی ابا نے اماں کو خود ہی سب کچھ بتا دیا۔ اماں نے ساری بات سنی۔ بولیں"دو دن بعد کیوں جانا؟ کل ہی جائیں اور مل آئیں"۔ ابا نے بات کا جواب نہیں دیا۔ اماں نے پھر دہرایا تو بولے "ابھی خالی ہاتھ کیسے جاؤں۔ میں نے آخری بار اپنی بچی کو تب دیکھا جب وہ ڈھائی سال کی تھی۔ اب وہ جوان ہو چکی ہے۔ اس کو خالی ہاتھ ملنے نہیں جا سکتا۔ کل کچھ رقم کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس کے لیے کچھ لے کر جاؤں گا"۔
ان دنوں ابا کا کاروبار ختم ہو چکا تھا۔ مالی حالات اس قدر تنگ ہوئے کہ اماں کو نوکری کرنا پڑی۔ سرکاری سکول میں وہ ٹیچر تھیں۔ ان کی آمدن سے گھر چلتا تھا۔ ابا نے اپنا کاروبار ختم ہونے کے بعد کبھی دوبارہ کاروبار کا سوچا ہی نہیں۔ وہ سخت دلبرداشتہ ہو چکے تھے اور پھر صحت کے مسائل سامنے آئے تھے۔ ان کو جگر کا سرطان لاحق تھا۔ ڈاکٹروں کے چکر لگتے رہتے تھے۔ ابھی وہ بظاہر تندرست لگتے تھے اور ایکٹو رہتے تھے مگر کبھی کبھی حالت اچانک بگڑ جاتی تو دو دن ہستپال میں ہی کٹتے اور پھر وہ بظاہر تندرست ہو کر چلنے پھرنے لگتے۔
اماں کی تنخواہ میں سے گھر چلانا اور بیماری ہنڈانا بہت مشکل ہو چکا تھا۔ ٹی وی بک گیا تھا، اور گھر کی اشیاء بک چکیں تھیں۔ صرف فرج رہ گیا تھا یا پھر وہ نادر قرآنی نسخہ جو ابا کے بقول بہت مہنگا تھا اور اگر وہ چاہیں تو اس کو کسی عجائب گھر یا میوزیم کو دے کر اچھے خاصے پیسے وصول سکتے تھے۔ مگر ابا مجھے کہتے "خبردار اس کو کبھی کسی کو دیا۔ آئی سمجھ؟ یہ میں اپنی بچی (میری چھوٹی بہن) کو جہیز میں دوں گا بس"۔
اس رات اماں نے اپنی سونے کی چین نکالی جو ان کے پاس واحد زیور موجود تھا اور ابا کو تھماتے کہا "اسے صبح بیچ دو اور یہ (میں) ساتھ جائے گا۔ آپ کی حالت ٹھیک نہیں راہ میں کوئی اونچ نیچ ہو تو سنبھالنے والا ہونا چاہئیے"۔ اور پھر مجھے الگ لے جا کر بولیں"زیادہ جذباتی نہ ہونے دینا اور جو بات ہو مجھے واپس آ کر بتانی ہے"۔
اگلے روز ابا صبح صبح باہر نکل گئے۔ اماں کی گولڈ چین نہیں بیچی اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بہت سارے شاپنگ بیگز میں موجود تحفے کہاں سے اور کیسے لے آئے۔ ان میں کچھ کھلے کپڑے تھے، پرس تھا، مٹھائی وغیرہ تھی اور اسی قسم کا ڈھیر سامان تھا جو لڑکیوں کا ہوتا۔ مجھے اب یاد نہیں کیا کیا تھا بس یہ یاد ہے کہ تین بڑے بڑے فل سائز شاپر تھے جو میں نے اٹھانے تھے۔
بس دوپہر ایک بجے لاڑی اڈے سے نکلی۔ یہی شدید گرمی و حبس کے دن تھے۔ نکلنے سے پہلے ابا نے اپنی آمد کی اطلاع دینے کو ایک پی سی او سے فون کیا۔ میں زندگی میں دوسری بار لاہور جا رہا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ مینار پاکستان دیکھوں گا۔ اس سے قبل پہلی بار سکول ٹرپ پر لاہور جانا ہوا تھا۔ ساری راہ ابا خاموش رہے۔ تین گھنٹوں بعد شام چار بجے گاڑی یادگار چوک پہنچی۔ سامنے مینار پاکستان تھا۔ وہیں سے ابا نے ٹانگہ لیا۔ ان دنوں لاہور میں ٹانگے چلتے تھے۔ چاند گاڑی نہیں آئی تھی۔ ٹانگہ چلتے چلتے آدھ گھنٹے بعد ایک گلی میں داخل ہوا۔ ایک نئے یعنی جدید طرز پر بنے مکان کی بیل بجائی۔ اندر سے بھاگم بھاگ ایک لڑکی دروازہ کھول کے نکلی اور پھر مجھے دیکھتے ہی ساکت رہ گئی۔۔
جاری ہے۔۔