Mere Abba Ji (1)
میرے ابا جی (1)
ابا مرحوم کی زندگی ایک ناول کی داستان ہے جو انہوں نے مجھے میری ہوش سنبھالنے سے لیکر اپنی وفات تک میری ہوش کے دس سالوں میں قسط وار سنائی اور کچھ کہانی زندہ کرداروں کی صورت میرے سامنے خود آن کھڑی ہوئی اور ورق ورق کھُلتی رہی۔ جب ابا کا موڈ ہوتا وہ اپنے ماضی کو کرید کر مجھے سنانے لگتے اور پھر یکدم چُپ کر جاتے۔ میری ماں نے مجھے ان کے بارے ان سے زیادہ بتایا اور تب زیادہ بتایا جب وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
زندگی میں ابا جب اپنے بارے کچھ بتاتے تو اماں بھی کہیں آس پاس ہی ہوتیں۔ جب وہ کہانی ادھوری چھوڑ دیتے تو میں تشنگی و تجسس کے مارے اماں سے بعد میں پوچھنا چاہتا۔ اماں جواب دیتی "مجھے کیا معلوم میرے بیاہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔ جتنا بتاتے ہیں تمہارے سامنے ہی بتاتے ہیں"۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اماں سے کچھ چھُپا ہوا نہیں تھا بس اماں یہی چاہتی تھی جتنا اس کا باپ بتاتا ہے اتنا ہی اس کے واسطے کافی ہے۔ پرانی عورتیں اپنے خاوند سے تعلق کو کیسے کیسے احسن طریقے سے نبھاہتی تھیں یہ بہت بعد میں پتہ چلا۔
میرے دادا سید اکبر علی بخاری صوفی منش انسان تھے۔ دنیاداری سے دور زندگی بسر کی اور عبادت کو طریق بنائے رکھا۔ میری دادی کا نام سیدہ صغریٰ بیبی تھا۔ میرے آبائی گاؤں بھڑتھ (سیالکوٹ کینٹ کے مضافات) والوں سے آج بھی پوچھ لیں تو ان کے بقول اکبر علی شاہ ولی تھے اور صغریٰ بیبی جنتی خاتون۔ اس کی شہادت مجھے یوں ملی کہ ہمارے گھر سیالکوٹ شہر میں لوگ گاؤں سے آیا کرتے اور ابا سے دم اور دعا کروانے کو پہنچ جاتے۔ گھر کی بیٹھک اسی چکر میں آئے روز کھُلی رہتی۔ ابا کئی بار ان کو سمجھاتے اور کئی بار جھاڑ بھی پلا دیتے کہ بے وقوفو اتنی دور سے یہاں نہ آیا کرو میں کوئی صوفی ولی نہیں کیوں خود کو تکلیف دیتے ہو اور ادھر چلے آتے ہو۔ مگر لوگ سمجھتے ہی نہیں تھے۔
ان کے نزدیک میرے ابا سید اکبر علی شاہ کے فرزند تھے اور اکبر شاہ ولی تھے۔ جب تلک ابا کے مالی حالات کاروبار کے سبب بہتر رہے ابا کسی طرح لوگوں کی اندھی عقیدت کو ان کی سادہ حالی سمجھ کر برداشت کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ شاید کھانے پینے کو چلے آتے ہیں کوئی بات نہیں اللہ نے دیا ہے تو خیر ہے۔ گھر آیا کوئی بندہ کھانے کے بنا نہیں جاتا تھا۔ اماں کبھی کبھی اس روٹین سے شدید تنگ ہو جاتیں کہ ہر دم چولہے کے آگے کھڑے رہنا بھی تو زحمت تھی۔ کبھی چائے بن رہی، کبھی روٹیاں، کبھی کچھ کبھی کچھ۔
جب مالی حالات بگڑ گئے اور اپنی حالت دو وقت کی روٹی سے ایک وقت پر آ گئی تو ابا کو لوگوں پر غصہ آنے لگ گیا۔ جو بھی دعا دم کروانے پہنچتا اسے کہتے "پاگل آدمی میری حالت دیکھی ہے؟ میری دعا میں اثر ہوتا تو میرا کاروبار ڈوبتا؟ میں اس حال میں ہوتا؟ کہاں کہاں سے آ جاتے ہو تم پاگل لوگ"۔ مگر لوگ تو لوگ تھے وہ کہاں سمجھتے۔ وہ تو عقیدت کی پٹی آنکھوں پر چڑھا کے آتے تھے۔
میرے دادا کی وفات میرے والد کی کمسنی میں ہوگئی۔ ابا دو سال کے تھے جب دادا چل بسے۔ ابا کی چھوٹی بہن یعنی میری پھپھو دس ماہ کی تھی۔ میری دادی نے ان دونوں بچوں کو لیا اور اپنے میکے چلی گئیں۔ وہاں کئی سال رہیں۔ جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو واپس اپنے شوہر کے گھر میرے آبائی گاؤں آ گئیں۔ ان کے شوہر کا مکان خالی پڑا تھا۔ ان کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اس پر قبضہ کر بیٹھے ہیں تو واپس پہنچ گئیں۔ قبضہ واپس لیا۔ اور یوں ابا واپس اپنے آبائی گاؤں پہنچے۔
اس زمانے میں گاوؤں میں چھوٹی عمر میں ہی شادی کر دینے کا چلن تھا۔ قانون یا تو نہیں تھا یا پھر تھا بھی تو عملداری نہیں تھی۔ چائلڈ میرج ایک رواج تھا۔ میرے ابا کی شادی بھی کروا دی گئی۔ خاندان کی ایک لڑکی سے رشتہ جوڑ دیا گیا۔ اس وقت ابا مڈل کلاس میں پڑھتے تھے۔ عمر ہوگی چودہ سال۔ وہ شادی لالچ کی بنیاد پر کی گئی۔ ابا کے حصے میں جو تھوڑی بہت آبائی زمین آئی تھی اس کا لالچ تھا۔ ابا کے بقول یہ شادی زور زبردستی کی شادی تھی۔ دادی ایک دن سوئی اور پھر نہ جاگ سکی۔ دادی کے گزر جانے کے بعد ابا نے طلاق دے دی۔ جب تک میری دادی زندہ تھی وہ طلاق سے نفرت کرتی تھی اور ابا کو روک دیتی تھی۔ وہ زور جبر کی شادی چھ سال رہی۔ بیس سال کی عمر تک پہنچتے ابا نے طلاق دے دی اور اس کے ساتھ ہی خاندان میں تقسیم ہوگئی۔ دشمنی پڑ گئی۔ رشتے دشمنی میں بدل گئے۔ مرنا جینا ختم ہوگیا۔
چھبیس سال کی عمر میں ابا نے ایک غلطی کر دی۔ غلطی یوں کہ خاندان پہلے ہی دشمن بن چکا تھا اوپر سے ابا نے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ دو طرفہ پسند کی شادی کر لی۔ وہ لڑکی غیر سادات سے تھی اور اس گھر سے تھی جسے خاندان والے مناسب ذات کا نہیں سمجھتے تھے۔ اوپر سے وہ گھر اہلحدیث گھرانہ تھا اور ابا ٹھہرے کٹر شیعہ۔ یہ نکاح دو طرفہ پسند کا تھا۔ ابا جب یہ قصہ بتاتے تو یہ نہیں بتاتے تھے کہ کیسے اور کن حالات میں پسند آئی اور میں نے کبھی یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہ کی۔ اگر وہ غصہ کر جاتے تو ان کی ایک دبک ہی پورے محلے تک گونجتی تھی۔ میں آج تک نہیں جانتا کہ ابا کو وہ کہاں اور کیسے پسند آئی۔
شادی کے دو سال بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اس کے بعد حالات بگڑتے گئے۔ ایک بڑا مسئلہ وہی اُٹھا کہ ابا شیعہ اور وہ اہلحدیث اور ابا بھی ایسے شیعہ کہ جو اپنی کمائی مجالس و سبیل و لنگر میں کھُلی لگا دیتے۔ پھر بیٹی کے پیدا ہونے پر مسائل ابھرنے لگے کہ شعیہ اذان نہیں دلوانی، یہ میری بیٹی ہے یہ شیعہ ہی ہوگی، نہیں یہ میری ہے یہ میرے مسلک کی ہوگی۔ ان مسائل سے لڑائی بڑھی اور بڑھتے بڑھتے نوبت پھر طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کے سوا اور بھی مسائل رہے ہوں گے مگر بقول ابا یہ مسائل میں بڑا مسئلہ ثابت ہوا تھا۔
طلاق کی وجہ بقول ابا یہ بھی تھی وہ اور اس کے گھر والے گاؤں چھوڑ کر جانا چاہتے تھے اور میں جا نہیں سکتا تھا۔ ان کی ڈیمانڈ روز روز یہی رہنے لگی کہ شہر منتقل ہونا ہے اور مجھے اس کی والدہ و والد کو بھی شہر میں گھر خرید کر دینا چاہئیے جہاں وہ منتقل ہو سکیں۔ الغرض طلاق کے بعد بچی کو اس کی والدہ لے گئی اور شاید طلاق کے دو سال بعد وہ اپنی بچی کو لے کر امریکا چلی گئی۔ وہاں اس نے دوسری شادی کر لی۔ جس سے شادی کی اس نے بچی کو قبول کر لیا۔
میری والدہ سے ابا کی تیسری شادی تھی۔ جو انہوں نے چھتیس سال کی عمر میں کی۔ یہ شادی مکمل ارینج میرج تھی۔ ابا کا کاروبار اس وقت عروج پر تھا سو یہ شادی سیالکوٹ شہر کی مہنگی شادی تھی۔ اس زمانے میں چالیس کرولا کاروں پر بارات گئی۔ یہ سنہ 1981 تھا۔ میرے والدین کی شادی کی تصاویر کا البم اب بھی دھندلا سا موجود ہے جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابا کی بارات کافی شاہانہ تھی۔
میری عمر لگ بھگ چودہ پندرہ سال ہوگی جب اچانک ایک دن قرآن مجید (گھر میں ایک قرآن مجید بہت پیارا ہوتا تھا اس کو اماں نے سنبھال کے رکھا تھا۔ پڑھنے کو دیگر قرآن و سپارے موجود تھے۔ وہ چونکہ نادر اور پیارا تھا اس لیے اسے کھولنے کی یا پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی) جس کے سبھی اوراق پر سونے جیسا پانی چڑھا ہوا تھا میرے ہاتھ آیا۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے اسے طاق سے نکال کر غلاف سے نکال کر دیکھا۔ اس میں ایک تصویر پڑی نکلی۔ وہ تصویر ایک چھوٹی بچی کی تھی جس کی عمر دو ڈھائی سال ہوگی اور وہ میری چھوٹی بہن کی تصویر نہیں تھی۔ تجسس کے مارے میں یہ بھی بھول گیا کہ اس نادر قرآنی نسخے کو کھولنے پر مجھے ڈانٹ پڑ سکتی ہے۔ میں وہ تصویر لیے بھاگا بھاگا ابا کے پاس گیا اور ان کے سامنے لہراتے بولا "ابو یہ کون ہے؟"۔
میں نہیں جانتا تھا کہ ابا نے وہ تصویر خود کئی سالوں بعد دیکھی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی ابو میرے سامنے رو پڑے اور میں ڈر سے کانپنے لگا کہ اب مار پڑے گی۔
(جاری ہے)