Mard e Hur
مردِ حُر
حُر کے لشکرِ یزید سے نکل کر لشکرِ حسین میں شامل ہونے تک یہ جو رات ہے یہ بڑی کشمکش کی رات رہی ہوگی۔ اسی رات نے حُر کا مقدر بدل دیا۔ اسے ذِلتوں سے نکال کر حسینی بنا دیا اور تا قیامت امر کر دیا۔ حُر کا نام جب آئے گا، جہاں آئے گا احترام میں سر جھک جائیں گے۔ آج اس کا نام ضرب المثل بن چکا ہے۔ "مردِ حُر"۔
یہ وہی حُر تھا جس نے 2 محرم کو حسینی قافلے کو زبردستی کربلا میں روک لیا تھا اور قافلے کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ حُر کی کمان میں تین ہزار نفوس پر مشتمل لشکر تھا۔ امام عالی مقام کے گھوڑے کی نکیل میں حُر نے ہاتھ ڈالا تو امام نے قدرے غصہ فرماتے ہوئے کہا " تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، کیا تو بھول گیا کہ کس کے گھوڑے کو روک رہا ہے؟"۔۔ حُر نے جواب دیا " آپ کی والدہ خاتونِ جنت ہیں، میں جواب میں آپ کو کچھ کہہ کر گستاخی نہیں کر سکتا۔ مجھے حکم ہے کہ جہاں آپ کو پا لوں وہیں روک لوں"
اور یہ وہی حُر ہے جو صبحِ عاشور فجر سے ذرا پہلے اپنے بیٹے کے ہمراہ امام کے پاس آیا اور بولا کہ میرے گناہوں کی کوئی معافی ہے؟ یہ وہی ہے جو کربلا کا پہلا شہید ہے۔ اسی نے عرض کی تھی کہ آپ کو سب سے پہلے روکا بھی میں نے تھا اور اب سب سے پہلے جنگ کو بھی میں جاؤں گا۔
یہ جو نو اور دس محرم کی درمیانی رات ہے جسے تاریخ شبِ عاشور لکھتی ہے۔ یہ حُر کے لئے بہت بے چین رات رہی ہوگی۔ اس کی نگاہیں خیام گاہ حسینی پر ٹکی رہی ہوں گی۔ اسی شب امام عالی مقام نے اپنے اصحاب کو خیمے میں جمع کیا اور چراغ گُل کرکے مکمل اندھیرا کرتے ہوئے کہا " صبح موت یقینی ہے۔ میں تم سب سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں۔ اس اندھیرے میں جو جانا چاہے ابھی چلا جائے۔ سپاہ یزید کی دشمنی مجھ سے ہے۔ وہ میرے اور میری اولاد کے خون کے پیاسے ہیں۔ تم سب کو وہ بخوشی جانے دیں گے۔ دیکھو اگر تم کو میرے منہ پر رخصت ہوتے شرم آتی ہے تو میں نے چراغ بجھا دیئے ہیں اور دیکھو، اگر تم اس وجہ سے برائے مروت رکے ہو کہ بروزِ محشر میرے نانا کو کیا منہ دکھاؤ گے تو میں حسین ابن علی تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری وفا کی گواہی میں دوں گا۔ میں اپنی رضا سے تم سب سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں"
جب خیمہ گاہ سے کوئی بھی رخصت نہ ہوا اور چراغ دوبارہ روشن ہو گئے تو شاید یہی وہ فیصلہ کن گھڑی رہی ہو جس نے حُر کی قسمت لکھ دی۔ اس نے اپنے بیٹے کو جب اپنا فیصلہ سنایا تو وہ اپنے باپ کے ہمراہ ہو لیا۔
حُر بننا آسان تھوڑی ہوتا ہے۔ اک طرف دنیا، دولت، عیش و عشرت، تین ہزار نفوس پر مشتمل دستے کی سپہ سالاری۔ دوسری جانب نری موت، پکی موت، یقینی موت۔۔ فیصلہ تو حق و باطل کا تھا۔ اس نے کیا خوب فیصلہ لیا۔
چودہ صدیاں بیتیں، حُر ایک کردار تھا، جیتا جاگتا کردار۔ جب موت یقینی ہو اور بالکل سامنے ہو تو کوئی نہیں مرتا صاحب! حُر بننا آسان نہیں، بہت کٹھن ہے بہت کٹھن۔۔ میرا سلام ہو حُر پر۔
ہم جیسے روزگارِ دنیا میں ڈھلے لوگ تو بس یہی شعر دل کی تشفی کو گنگنا سکتے ہیں
میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حُر ہوں اور لشکرِ یزید میں ہوں