Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Kaaba Mere Peeche Hai To Kalisa Mere Aage

Kaaba Mere Peeche Hai To Kalisa Mere Aage

کعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسا میرے آگے

مراکش میں شام بُجھی تو برقی قمقمے جلنے لگے۔ کچھ فاصلے پر تماشہ گر موجود تھے۔ کوئی جوکر بن کر کرتب دکھا رہا ہے تو کوئی منہ سے آگ نکال رہا ہے۔ کوئی آٹھ دس گیندیں ہوا میں اچھال رہا ہے تو کوئی بہروپیا بنا ہوا ہے۔ میں نے کیمرا نکال کر ایک تصویر لی تو میرے پیچھے دو تماشا گر آ گئے جن کے چہروں پر پینٹ ہوا تھا۔ وہ مجھ سے بیس درہم کا تقاضہ کرنے لگے۔ میں نے پوچھا "ایک تصویر کے بیس درہم؟" بولے "ہاں، بیس درہم نکالو"۔ ان کو بیس درہم دے کر آزاد ہوا اور پھر تصویر لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہیں کھڑا تماشے دیکھتا رہا۔

تماش بینوں میں سے ایک یورپی سیاح جوڑا میرے پاس آیا اور مجھ سے فرمائش کی کہ وہ دونوں میرے ساتھ تصویر بنوانا چاہتے ہیں۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ میرے ساتھ کیوں پھر چپ رہا کہ ان یورپیوں کا کچھ پتا نہیں چلتا کب، کہاں، کیا چاہنے لگیں۔ تصویر بن گئی تو میں نے مرد سے پوچھا کہ کہاں سے ہو؟ جواب ملا "جرمنی"۔ میں نے پوچھا کہ میرے ساتھ تصویر لینے کی کوئی خاص وجہ تھی؟ لڑکی بولی"اصل میں یہاں مقامی لوگوں کے ساتھ تصویر لو تو وہ بیس درہم مانگ لیتے ہیں۔ تم بالکل ان جیسے لگتے ہو۔ سوری مائنڈ نہ کرنا میرا مطلب تھا تمہاری رنگت ایسی ہے۔ مراکش میں کالی گہری مونچھ والے لوگ بہت کم ہیں اور ایسے بھی جن کے بال straight ہوں۔ تمہاری مونچھ بھی ہے بال بھی گھنگھریالے نہیں تو یہی خاص بات تھی"۔

اس کی بات سنتے ہی میرا پارہ ہائی ہوگیا۔ میں نے خود پر اور سارے گروپ پر در لکھ دی لعنت بھیجی اور غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا "پچاس درہم"۔ یہ سنتے ہی لڑکی کی باچھیاں کھل گئیں اور مرد کی آنکھیں سمٹ گئیں۔ مرد بولا "too much، too much"۔۔ میں نے کہا "میری مونچھ بھی ہے بال بھی سیدھے ہیں، ایسا بندہ سارے مراکش میں نہیں ملنا، نکالو پچاس درہم"۔ اب دونوں یک زبان ہو کر بولنے لگے تو مرد نے لڑکی کو چپ کروایا، پھر بولا "ہمارا بجٹ ختم ہوگیا ہے۔ کل ہماری واپسی ہے۔ ہم تو سوچ رہے تھے آج رات کہاں بسر کریں کیونکہ پیسے نہیں بچے۔ ہوٹل مہنگا تھا چھوڑ دیا۔ بیس درہم سے زیادہ نہیں ہیں ہمارے پاس"۔۔ مجھے سن کر ہنسی آ گئی کہ یہ بھی یورپی فقیر بننا چاہ رہا ہے۔ میں نے کہا اوکے نکالو بیس درہم۔ مرد نے بٹوے سے نکال کر مجھے تھمائے، جرمن زبان میں دونوں بڑبڑائے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ اب اپنی زبان میں مجھے کوس رہے ہیں۔

جیسے ہی وہ آگے بڑھے میں نے پیچھے سے جا لیا اور پیسے واپس کرتے ہوئے بولا کہ میں پاکستان سے ہوں، یونہی آپ سے مزاق کر رہا تھا۔ مرد نے مجھ سے قہقہہ برساتے ہاتھ ملایا اور پھر جپھی ڈال لی۔ لڑکی نے ہاتھ ملایا اور بولی "پاکستان از گڈ"۔۔ پہلے تو جی چاہا کہ کہہ دوں کہ ہاں پاکستان تو اچھا ہے پر تم اپنے رسم و رواج کیوں بھول گئی ہو، تم نے گلے نہیں لگایا۔ پھر سوچا کہ وہ یہ نہ بول دے" you are a real pakistani"۔

اتنے میں ایک مقامی شخص سامنے آن کھڑا ہوا۔ میری خیریت اور شہریت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگا "یہاں ایک پرانی لیدر فیکٹری ہے جہاں آج بھی قدیم طرز پر قدیم طریقے سے چمڑا بنتا ہے۔ جس نے مراکش آ کر وہ فیکٹری نہیں دیکھی اس نے اصلی مراکش نہیں دیکھا۔ میں آپ کو لئے چلتا ہوں، آئیے میرے ساتھ"۔ میں نے سوچا یہ ایک اور ٹھگ آ گیا اور اسے انکار کر دیا۔ انکار سنتے ہی وہ مسکرایا اور بولا "اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں پیسے لوں گا تو غلط سوچ رہے ہیں، میں تو بس آپ کو اپنی ثقافت سے روشناس کروانا چاہ رہا تھا۔ ہر انسان ایک جیسا نہیں اس بازار میں"۔ یہ سن کر مجھے اس پر ترس آیا اور میں شرمسار ہوگیا۔ اس کے ساتھ چل پڑا۔

وہ مجھے اندرون لاہور جیسی تنگ و تاریک گلیوں سے گھماتا ایک فیکٹری لے گیا۔ مجھے ماسک پیش کیا کہ اسے پہن لو اندر کچے چمڑے کی بہت بدبو ہوتی ہے۔ ماسک کیا تھا؟ کپڑے کے تھیلے میں خشک پودینے کی گتھی تھی۔ پودینے کی تیز خوشبو آ رہی تھی جس کی وجہ سے چمڑے کی بدبو محسوس کم ہوتی تھی۔ میں نے ماسک لگا لیا۔ چمڑے کی فیکٹری گھوم گھما کر باہر نکلا تو وہ شخص بولا "تیس درہم اگر دے دیں تو میرا بھی گزارا ہو جائے گا، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، یہی روزگار ہے ان کو پالنے کا، یوں تو آپ کی مرضی مگر آپ یقیناً رحم دل انسان ہیں مجھ پر رحم کھائیں گے"۔ میرے منہ سے نکلا "وڑ گیا وئی"۔ اس نے جواب دیا "شکریہ"۔۔ میں نے تیس درہم اسے دئے اور کلمہ پڑھ کر قسم کھا لی کہ اب کسی کی باتوں میں نہیں آنا۔۔

جھنجھلایا ہوا گلیوں سے نکل کر پھر مرکزی مارکیٹ چوک میں آ گیا۔ ایک شخص اُبلے ہوئے گھونگھے (snails) بیچ رہا تھا۔ مجھے کہنے لگا "صرف پندرہ درہم کا پیالہ"۔۔ میں نے کہا "نہیں کھانے"۔۔ اس نے کہا ایک مفت میں کھا کے تو دیکھو۔ میں نے کہا یہاں کچھ مفت نہیں مجھے الو نہ بناؤ۔ میری بات سنتے ہی وہ ایک گھونگھا لے کر سامنے آ گیا۔ ٹوتھ پِک سے اس نے گھونگھے کے شیل کے اندر سے گھونگھا نکال کر ایسے اٹھایا جیسے نیزے پر سر اٹھاتے تھے۔ پھر میرے منہ کی جانب لپک کر بولا "مفت کھاؤ"۔ میں نے منہ پھیر لیا اور کہا "بابا جی میں یہ شے کھاتا ہی نہیں کیوں کھاؤں"۔۔ بولا "قسم ہے تم کو ایک کھانا پڑے گا"۔۔ اس نے میرے ہونٹوں پر زبردستی گھونگھا رکھا دیا۔ میں نے سوچا چلو ٹیسٹ کر لیتے ہیں اب۔ میں اسے نگل گیا۔ اس کا ذائقہ بالکل ایسا تھا جیسے بکرے کی نلی کا گودا ہو۔

نگلنے کے بعد میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بس مزید نہیں۔ وہ بولا "جیسے تمہاری مرضی"۔ وہاں سے رخصت ہوا تو رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ بازار میں بار بی کیو کی خوشبوئیں پھیل رہی تھیں۔ آج کی شام کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ میں نے واپس ہوٹل کی راہ لی۔

چوک سے نکلا تو سامنے سجی سجائے بگھیوں والے کھڑے تھے۔ خوبصورت بھگیاں تھیں۔ یہ بگھیوں والے سیاحوں کو پرانے شہر کی سر کرواتے ہیں۔ ایک بگھی والے نے مجھے متوجہ کیا اور بولا "جس نے بگھی میں سیر کرتے پرانا مدینہ نہیں دیکھا اس نے پیدا ہونے کا حق ادا نہیں کیا"۔ میں جو کہ بازار گھومتے وہ قرض بھی اتار چکا تھا جو واجب بھی نہیں تھے اس لئے مجھے کلمے کی قسم یاد آگئی کہ اب کسی جال میں نہیں پھنسنا۔ میں چلنا ہی چاہتا تھا کہ ایک گوری لڑکی جو بگھی پر بیٹھی تھی بولی "آ جاؤ، میں کب سے انتظار میں تھی کہ کوئی اور ٹورسٹ بھی آ جائے، یہ بگھی والا مجھے اترنے بھی نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ کم سے کم ایک اور سواری مل جائے تو چل پڑوں گا"۔ میں نے غور سے دیکھا تو گوری کے برابر میں خالی جگہ تھی اور وہ اسی جگہ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔۔

اب مجھے قسم یاد آنے لگی۔ چچا غالب کی سچویشن کا اب اندازہ ہوا کہ "کعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسا میرے آگے"۔۔ بس ایک منٹ سوچ بچار کرنے کے بعد میں کلیسا کی جانب چل پڑا۔

بگھی چلی تو کلیسا کے مینار جھولنے لگے مطلب گوری بیٹھی بیٹھی ڈانس کرنے لگی۔ میں بت بنا اسے حیرت سے دیکھتا رہا کہ اسے اچانک مرگی کا دورہ کیوں پڑ گیا۔ اس کا قد چھ فٹ سے بڑا تھا اور ڈیل ڈول بالکل اصلی جٹ لوگوں جیسا۔ اس کے ہلنے سے بگھی بھی ہلتی تھی۔ میرے استسفار پر بولی کہ وہ آسٹریلیا سے تعلق رکھتی ہے، خالص آسٹریلین قد و قامت میں چھ فٹ سے بلند ہوتے ہیں۔ بگھی ٹرین کی بوگی جیسے جھولتی چلتی رہی اور کلیسا ہلتا رہا۔ جب مرگی کا دورہ اترا تو پسینہ خشک کرتے بولی "تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟"۔ میرا معلوم ہونے پر اس نے اپنا رخ مکمل میری جانب پھیر لیا اور میرے وطن کے بارے معلومات لینے لگی۔ پھر ایک جگہ بگھی رک گئی۔

وہ وہیں سے رخصت ہوئی کیونکہ اس کا ہوٹل کہیں آس پاس ہی تھا اور میں بگھی میں اکیلا رہ گیا۔ واپس مسجد کے پاس آ کر بگھی رکی تو میں چلتا چلتا اپنے ہوٹل پہنچا۔ کمرے میں پہنچ کر بستر پر تھک کر گر پڑا۔ آنکھیں موندیں تو لاہور سے مراکش کی سفری یادیں آنے لگیں۔ رات گہری ہوئی اور میری اگلے سفر کی پلاننگ کرتے کرتے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں تماشہ گر آئے، مسجد آئی اور پھر کلیسا آیا۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat