Saturday, 07 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Jeena Hai To Teen Lakh Kamana Hai

Jeena Hai To Teen Lakh Kamana Hai

جینا ہے تو تین لاکھ کمانا ہے

اگر آپ اس ملک میں اپنی اور اپنی فیملی کے لیے باعزت مڈل کلاس زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں تو آج کی تاریخ میں آپ کو کم از کم تین لاکھ روپے ماہانہ کمانا ہوگا۔ آپ کو ملٹی پل سکلز سیکھنا ہوں گی۔ ڈگری آپ کی سکلز نہیں وہ آپ کی کلاس پاس کرنے کا سرٹیفکیٹ ہے۔ کسی بھی ڈگری پر آپ کو اتنی تنخواہ نہیں مل سکتی۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں ہے آپ اپنا ٹارگٹ ڈالرز میں رکھیں یعنی آپ کو ماہانہ بارہ سے پندرہ سو ڈالرز کے مساوی کمانا ہیں۔

نوکری کوئی بھی ہو وہ آپ کو اتنی رقم نہیں دے پائے گی ماسوائے ہائی گریڈ نوکری یا افسر شاہی۔ اس تک پہنچتے بھی عمر لگ جاتی ہے۔ یوں نہیں ہوتا کہ کمیشن پاس کرکے ڈائریکٹ آپ اس پے سکیل پر لگ جائیں۔ مشورہ میرا یہی ہوگا کہ جس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہوں اس کا مکمل علم حاصل کریں۔ اس شعبے سے متعلقہ غیر نصابی ایسے کورسز کرکے ہنر سیکھیں جس سے پراگرس میں مدد مل سکے۔ آپ اگر نوکری کے ساتھ پارٹ ٹائم فری لانسنگ کر سکیں گے تو ہی کما پائیں گے۔ یا پھر کُل وقتی کاروبار کی طرف جائیں اور جس کاروبار کی طرف جائیں اس پر محنت و ریسرچ کریں۔

پروفیشنلز، باہنر اور ملٹی پل سکلز رکھنے والے لوگوں کے واسطے ماہانہ تین لاکھ کمانا کوئی ایشو ہی نہیں۔ اس سے دوگنا تین گنا کما لیتے ہیں۔ لیکن اس کے واسطے محنت شرط ہے۔ اٹیچیوڈ شرط ہے۔ شارٹ کٹ کوئی بھی نہیں۔ وگرنہ پھر آپ اس ملک سے ہجرت کر جائیں مگر دھیان رکھئیے گا بیرونی دنیا میں بھی تب ہی کما پائیں گے جب پاس کوئی ہنر ہوگا۔ ورنہ لیبر جاب ہی ملے گی۔ ٹریڈنگ شعبے کامیاب رہتے ہیں۔ پلمبر، الیکٹریشن، گارڈنر، وغیرہ وغیرہ جیسے ٹریڈنگ شعبوں کی مانگ پوری دنیا میں ہے۔ لیکن کوالیفائیڈ لوگوں کی۔ ہمارے ہاں ہر بندہ یہ کام کرنے پر لگا ہے مگر کوئی ماہر ڈھونڈنے نکلو تو بمشکل ہی مل پاتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے دام لگاتا ہے۔

میرا یہ کلام ان کے واسطے ہے جو ابھی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کی ڈگری بیرونی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ماسوائے لمز، آئی بی اے اور اس جیسی چار پانچ یونیورسٹیز کے اور ان کو سیلف فنانس پر افورڈ کر پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ڈگری بس آپ کی امیگریشن میں مددگار ہو سکتی ہے۔ وہاں جاب انٹرویوز میں مددگار نہیں ہوگی۔ وہاں ڈگری سے متعلقہ شعبے میں اضافی سکلز ہی کام آئیں گی۔

باقی وہ لوگ جو عمر گزار چکے اور ابھی تک کچھ نہیں بن پائے یا بہتر کمانا سیکھ نہیں پائے ان کے لیے اس ملک میں رہنا بہت مشکل ہے اور مستقبل میں مزید ہوتا جائے گا۔ اب وہ یہی کر سکتے کہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی پلاننگ کر لیں۔ اگلی نسل پر توجہ دیں۔ ان کی کیرئیر کونسلنگ کروائیں۔ کمانا ایک فن ہے اور اس کے واسطے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیاں پولٹری شیڈ ہیں جو بس فیسز کے بدلے فارمی مرغیاں پروڈیوس کرتی جا رہی ہیں۔ ڈگریاں دیتی جا رہیں۔ مارکیٹ میں ان کی کوئی کھپت نہیں۔ نوکریاں نہیں۔ ایسے حالات میں ڈگری یافتہ اور نوکری پر انحصار کرنے والا مر جائے گا۔

پچیس کروڑ عوام ہے۔ کمانے کے مواقعہ اس گنجان آباد ملک میں بہت ہیں۔ ان کو تلاش کرنا ہنر ہے۔ جو اس ہنر کو سیکھ گیا وہ کما جائے گا۔ کسی ایک ہنر میں ہی یکتا اور ماسٹر بن جائیں تو زندگی سنور جائے گی۔ ورنہ ساری عمر روتے گزر جائے گی۔ نااہل و بدعنوان حکمران اور کرپٹ سول و ملٹری بیوروکریسی بظاہر نظر آنے والے موٹے مسائل سہی مگر اصل مسئلہ تو عوام ہیں جو طبقات میں بٹے روتے بھی جاتے ہیں، گالیاں نکالنے سے بھی نہیں چوکتے اور اپنا قبلہ بھی درست نہیں کرتے۔ ہم سب ذہنی طور پر ایک مسیحا کے انتظار میں بیٹھے ہیں جو آئے گا اور ہم سب کو دکھوں سے نجات دلائے گا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا مسیحا ہے۔

اور پھر یہ بھی کہ لوگ سیلف میڈیکیشن یا خود تشخیصی پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ پچیس کروڑ لوگ نہیں بلکہ اس بیمار معاشرے میں پچیس کروڑ ڈاکٹر ہیں جن میں سے کوئی دوسرے کی تشخیص سے متفق نہیں ہوتا۔ جب ریاست میں سب سیانے ہوں تو سیانے مریض کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں کوئی عقل کی بات کرنا بھی چاہے تو اسے شٹ آپ کال دی جاتی ہے "اوئے بوہتی بکواس نہ کر۔ تینوں کی پتہ؟ اصل گَل میں دسنا واں۔۔ "

نوجوانوں اپنی ذات پر فوکس کرو۔ یہ میڈیا، یہ بحثیں، یہ سیاست و لیڈران، یہ فوج اور بیوروکریسی ان سب پر تب وقت اور توجہ دینا جب خود کو سٹیبل کر لو۔ وقت بہت قیمتی خزانہ ہے۔ یہ ہر لمحہ خرچ ہو رہا ہے۔ واپس نہیں ملنے کا۔ اس دنیا کی کچھ پتھریلی حقیقتیں ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بھرے پیٹ والے کی بات غور سے سنی جاتی ہے، غریب کو دھکا ہی پڑتا ہے۔

Check Also

Pasand o Na Pasand Ke Mabain

By Mojahid Mirza