Jaali Inteligencia
جعلی انٹیلجنشیا
احساس محرومی، انسانی حقوق کی صلبی، گھٹن، نامساعد حالات، نفسیاتی دباؤ اور مُلائیت کے ری ایکشن نے ایسی جعلی انٹیلجنشیا کو جنم دیا ہے جس کا ہدف تنقید اور مشق سخن صرف مذہب بنتا ہے۔ آپ ان سے مکالمہ کرنا چاہیں تو یہ آپ کو ویسٹرن انٹیلجنشیا کو کوٹ کرنے لگیں گے۔ یعنی ویسٹ کے افکار ان کی بائبل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ حالت اچانک طاری نہیں ہوتی۔ برسوں لگ جاتے ہیں۔ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ مذہبی حلقے کی جانب سے جو کچھ سامنے آتا رہا ہے یہ اس کا ری ایکشن ہے۔ یعنی متضاد قوت ہے۔
اس پر مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ مذہب کو مانتے یا نہیں۔ آپ نہ مانیں کسی کو کیا ایشو ہو سکتا۔ پر یہ ایشو ہے جب آپ مذہب پر انگلی اٹھائیں۔ کس حیثیت میں؟ مطلب آپ فرد واحد ہیں پیامبر نہیں جو آ کر کسی مذہب کو کالعدم قرار دے دے۔ آپ ریاست کے شہری ہیں اور یہاں ریاست کا مذہب ہے۔ یہ الگ بات کہ ریاست کا مذہب ہونا چاہئیے یا نہیں۔ میری رائے میں ریاست کا مذہب نہیں ہونا چاہئیے وہ نیوٹرل یا سیکولر ہو۔ افراد کا مذہب ہوتا ہے وہ جسے بھی فالو کریں۔ ریاست کسی فرد پر کچھ تھوپنے کی مجاز نہیں ہونی چاہئیے۔ ایسی میری یا کئی لوگوں کی خواہش ہو سکتی مگر ایسا ہے تو نہیں ناں۔
لہذا اپنی دانش، عقل و فہم کو مذہب کے معاملے میں اپنی بیٹھک، اپنے رفقاء اور اپنے قریبی نجی سرکل تک رکھنا چاہئیے۔ جب آپ پبلک فورم پر مذہب میں خامیاں تلاش کر لکھیں گے تو پھر سوال یہ اُٹھے گا کہ کیا آپ کے آزو بازو والے، آپ کے عزیز و اقارب، آپ کے یار دوست، خاندان، کیا وہ آپ سے متاثر ہو کر آپ کی سوچ اپنا چکے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر آپ عوام الناس تک اپنی ہدایت کا چراغ روشن کرکے اس کی روشنی پہنچائیں۔ اور اگر نہیں تو پھر پہلے اپنے حلقہ احباب کو تو متاثر کر لیں۔ پبلک فورم پر بعد میں پند و نصوح فرما لیجئیے گا۔
بھئی آپ نہیں چاہتے ناں قربانی ہو، جانور ذبح ہوں، جلوس نکلیں، روزوں میں سرکار اپنا بنایا قانون نافذ کرے، وغیرہ وغیرہ وغیرہ تو آپ کی اس خواہش کو لاکھوں کروڑوں لوگ نہیں چاہتے۔ جمہوریت کی رو سے اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے۔ مثالیں آپ ویسٹرن سکالرز کی دیتے ہیں تو ویسٹ کا نظام بھی تو مانو۔
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ ہم جمہوریت نہیں مانتے۔ خلافت بھی نہیں مانتے۔ ہم بس ویسٹرن سکالرز کو مانتے۔ بھائی، دلیل کا ہتھیار ہر کسی کے ہاتھ میں ہوتا۔ دلیل ہوتی ہے تو انسان اپنے نظریات پر کھڑا ہوتا ہے۔ یا تو جمہوری رائے کو مانو یا اپنے نظریات کو اپنے تک رکھ لو۔ بھائی کوئی ایک شے پالو ناں۔ اپنی خواہشات کا پرچار کرنا چاہو تو اس بنیاد پر کرو جو مخالف یا مخاطب کے لیے قابل قبول ہو۔ ورنہ اپنی انرجی ہی ضائع کر رہے۔
آپ جیسا سماج چاہتے ہیں ویسا نہیں ہے تو آپ جل کڑھ سکتے ہیں۔ غصہ آتا ہے۔ بالکل بجا۔ آپ اپنے اندرونی فشار کا اظہار کیجئیے۔ آپ کہئیے کہ میں خون نہیں دیکھ سکتا نازک دل کا مالک ہوں، مجھے جانور کو ذبح ہوتے نہیں دیکھا جاتا، مجھے رمضان میں روزے بوجھ لگتے ہیں، مجھے مذہبی جلوس تنگ کرتے ہیں میرا راستہ بند کرتے ہیں۔ بالکل کہئیے۔ کوئی ایشو نہیں۔ آپ کی رائے ہو سکتی ہے۔ پر جب آپ یوں کہیں کہ قربانی فضول ہے، کہاں حکم ہے، کس نے کہا کرو، جلوس کیا تماشہ ہیں، روزے نرا عذاب ہیں، اس کی کیا جسٹیفکیشن ہے، فلاں مذہبی رکن کا کیا فائدہ ہے وغیرہ وغیرہ تو حضور یہ نامناسب ہے اور قطعیت یا کٹر پن کا مظہر ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ الحاد اور لبرل ازم کے نام پر سامنے آتا ہے وہ ملائیت کا اینٹی ہے یا اس کا ری ایکشن ہے۔ نہ یہاں الحاد خالص ہے نہ لبرلز۔ یہ ری ایکشنری فورس ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ انسان کسی کو صرف و صرف معتدل مزاجی سے انسپائر کر سکتا ہے۔ کٹر پن سے ہرگز نہیں۔ وہ چاہے مذہبی طبقے کا کٹرپن ہو چاہے یہاں کے الحادیوں و لبرلز کا۔