Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Inteha Pasandi Ki Paneeriyan

Inteha Pasandi Ki Paneeriyan

انتہا پسندی کی پنیریاں

آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اسی فیصد لطیفےاور سو فیصد گالیاں عورت کے گرد گھومتی ہیں۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو ڈائین۔ کیا سارا سماج بچپن سے بڑھاپے تک اسی گھٹی پر نہیں پلتا۔ اور پھر یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدل جاتا ہے۔

وہ پولیس والا بھی ہمارے ہی گھر اور گلی محلے کی تربیتی پیداوار ہے جو اکثر تفتیش سے پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ دراصل جو عورت شکایت لے کر تھانے آئی ہے اس کا کردار ہی مشکوک ہے۔ اس کا حصولِ انصاف کے لیے کسی مرد کا وسیلہ حاصل کرنے کے بجائے خود چل کر آنا ہی اس کی بے شرمی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ " شریف عورتوں" کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔

یہ نفسیات اور طرزِ عمل اعلیٰ ترین عہدے داروں سے لے کر مجھ تک سب کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ کسی ٹھیلے والے کے نہیں بلکہ ایک صدرِ مملکت کے الفاظ ہیں کہ " چند خواتین مغربی ممالک کا ویزہ لینے کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں۔ "

یہ کسی راہ چلتے لاابالی لونڈے کے نہیں بلکہ ایک منتخب وزیراعظم کے الفاظ تھے کہ " خواتین جس طرح کے فیشن کرکے باہر نکلتی ہیں۔ کچھ مرد انہیں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ "

اور یہ کسی جیدے کن ٹٹے کے نہیں بلکہ ایک معزز پارلیمنٹیرین کے الفاظ ہیں کہ " مٹھائی پر مکھی تو آئے گی۔ "

یہ کسی راہ چلتے کے الفاظ نہیں بلکہ آپ کے معاشرے میں مشہور ڈرامہ نویس کے لائیو ٹی وی سیشن میں کہے الفاظ ہیں"کتی، الو کی پٹھی، بلڈی باسٹرڈ، شٹ اپ، تمیز سے بات کر گھٹیا عورت۔۔ تمہارے جسم میں ہے کیا؟ میں تھوکتا بھی نہیں تمہارے جسم پر۔۔ "

ان سب معززین کا خیال ہے کہ جو عورت فیشن سے دور ہے، سات پردوں میں رہتی ہے، آواز اونچی نہیں کرتی، غیر مردوں سے فاصلہ بنا کر چلتی ہے، مخلوط تعلیم کے ماحول سے محفوظ ہے، دینی فرائص پر کاربند ہے اس کا ریپ نہیں ہو سکتا۔ مگر چار برس کی بچی اس خود ساختہ فریم میں کیسے فٹ ہو؟ اس پر اکثر زبانیں اِدھر اُدھر دائیں بائیں کی ہچر مچر شروع کر دیتی ہیں۔

اس پدرسری معاشرے کا ری ایکشن وقت کے ساتھ ڈویلپ ہونا شروع ہوتا ہے اور سنہ 2013 سے کھُل کر سامنے آنے لگتا ہے۔ اسی سماج میں"میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ عورت کارڈ پھر بطور ہتھیار استعمال ہونے لگتا ہے۔ وومن ایمپاورمنٹ کے نام پر جنس کی تفریق رکھی جاتی ہے اور میرٹ تیل لینے چلا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر گروپنگ، جتھہ سازی اور اپنی ناموس کے دفاع میں منظم مہم جیسی صورتحال سامنے آنے لگتی ہے اور یوں ایک انتہا کا جواب دوسری انتہا سے دیا جاتا ہے۔

کوئی مڈل کلاس عورت، کوئی لو مڈل کلاس عورت، کوئی جھگی والی، کوئی کچے مکان والی، کوئی دو وقت کی روٹی کو ترستی، کوئی دربدر پھرتی، کوئی گھر سے نکالی ہوئی، کوئی درباروں و مزاروں پر آسرا ڈھونڈنے والی عورت کہاں چلی گئی اور یہ کون سامنے آ گئیں؟

"مجھے حیا سکھانے سے پہلے اپنی سرچ ہسٹری چیک کراو"

"مردانہ کمزوری۔۔ اینڈ آف سٹوری"

کیا یہی نعرے مسائل ہیں؟ کیا وراثت کے حقوق، طلاق کا حق، کاروکاری، وٹہ سٹہ، قرآن سے شادیاں، ریپ، ورک پلیس ہراسانی وغیرہ وغیرہ سب حل ہو گئے؟

وطن عزیز میں کم و بیش 11 کروڑ خواتین و بچیاں بستی ہیں۔ 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 40 فیصد ہماری سفید پوش لوئر مڈل کلاس ہے۔ 20 فیصد مڈل کلاس ہے۔ ان کے حقوق کی بات کون کرے گا؟

دونوں جنس انسان ہیں۔ انسان ہیں تو کسی سے بھی غلطی یا جرم سرزد ہو سکتا ہے اور کوئی بھی قابل یا باہنر ہو سکتا ہے۔ مگر اس میں تفریق تو کیجئیے کہ اصولاً جو جہاں غلط ہے وہ غلط ہے۔ اس کو انا کا مسئلہ بنانا، ذاتیات پر اتر آنا، گینگ آپ ہونے لگنا، یہ انسان کی صفت نہیں۔

میں اپنے پڑھنے والوں سے کئی بار کہہ چکا ہوں پھر دُہرائے دیتا ہوں کہ جس شخص کے پاس صبح تا شام ہر وقت مذہب، سیاست اور جنس کے سوا کہنے کو کوئی اور مواد نہیں اس سے جتنی دوری اختیار کر سکتے ہو کر لو۔ یہ انتہا پسندی کی پنیریاں ہیں جبری قلمی مشقتی ہیں۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry