Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Insaniyat Shaheed Hui

Insaniyat Shaheed Hui

انسانیت شہید ہوئی

یکم محرم اکسٹھ ہجری کو کربلا شروع ضرور ہوئی مگر ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی امکان ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جو معاملہ چند اصحاب کی شہادت سے شروع ہوا وہ چودہ سو برس میں پھلتا پھولتا کروڑوں تک جا پہنچا ہے۔ بس ذرا سا روائیتی ذہنی فریم توڑ کے اپنے دماغ کی جالا بند کھڑکی سے باہر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ کوئی شے استعارہ نہیں سب ایک پتھریلی حقیقت ہے۔

ڈیڑھ ہزار برس پہلے بھی جب قتل عام کی خبر صحرائی بگولوں کے ہمراہ کوفہ تا مصر عام آبادی میں پھیلی ہوگی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوا ہوگا؟ خبر سن کے کچھ دیر کے لیے ذہن سناٹے میں آگیا ہوگا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں چند غمگین جملوں کے تبادلے کے بعد زندگی پھر ڈھرے پر آ گئی ہوگی۔ جتنے منہ ہوں گے اتنی باتیں ہوئی ہوں گی۔ کسی بھی دور کا عام آدمی اس سے زیادہ احتجاج کا عیش مول نہیں لے سکتا۔ مسئلہ نظریے سے زیادہ سروائیول کا ہے۔

ڈیڑھ ہزار برس پہلے آبادی بھی بہت کم تھی اور بندوق، ٹینک اور جہاز بھی نہیں تھے لہذا کم ہلاکتوں سے بھی سطوت و جبروت کا کام چل جاتا تھا۔ آج عالمی و مقامی طاقتوں کو لوگوں کے ذہن کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ لوگ مارنے پڑتے ہیں۔ کاش یزید کسی فرد کا نام ہوتا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ مگر یہ تو ایک کیفیت ہے جس کے عقیدے، رنگ، نسل اور نظریے کے بارے میں کوئی بھی اٹکل لڑانا ایک بے معنی مشق ہے۔ یوں سمجھئے جیسے ہوا ہے، پانی ہے، آگ ہے ویسے ہی یزیدیت اور حسینیت بھی ہم سب کی زندگیوں میں سائے کی طرح ایک دوسرے کے تعاقب میں آزو بازو، اوپر تلے، اندر باہر چل رہی ہیں۔ دونوں کیفیات مسلمانوں کے ہر چھوٹے بڑے فرقے سمیت دنیا کے ہر مذہب و لا مذہب میں نہ صرف موجود بلکہ مسلسل رواں ہیں۔ مگر ہمیں یوں دکھائی نہیں دیتیں کہ مقابل پر سے نگاہ ہٹے تو خود پر نگاہ پڑے۔

یا تو وہ زمانے افسانوی تھے یا درحقیقت تھے بھی تو اب نہیں ہیں کہ جب حقائق یا سفید تھے یا پھر سیاہ۔ آج کی دنیا میں کچھ سیاہ سفید نہیں رہا۔ سب گرے ہے۔ میرے اندر پوشیدہ حسینیت کی رمق اور یزیدیت کی لہر میں سے کس وقت کیا باہر آ جائے یا کب دونوں کیفیات اندر ہی اندر خلط ملط ہو کر پھر الگ الگ ہو جائیں یہ میں نہیں جانتا۔ میں کب ظالم سے مظلوم اور مظلوم سے ظالم میں تبدیل ہو جاؤں۔ نمی دانم۔

ڈیڑھ ہزار برس پہلے جب پیغام رسانی اونٹ یا گھوڑے پر بیٹھے تیز رفتار قاصدوں کی محتاج تھی تب بھی یہ عیاشی محض امیروں اور خاص لوگوں کو میسر تھی۔ عام آدمی براہِ راست اطلاع بھیجنے یا وصول کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اسے تو اتفاقاً مہینوں برسوں میں معلوم پڑتا تھا کہ دور پار کیا ہوا کیا نہیں ہوا۔ لہذا اس دور کا عام آدمی یہ کہتے ہوئے حق بجانب لگتا ہے کہ ہمیں اگر بروقت معلوم ہو جاتا کہ نواسہ رسول، اہلبیت اور احباب اہلبیت پر ایسی المناکی آن پڑی ہے تو ہم کاہے کو گھروں میں بیٹھے رہتے۔ (حالانکہ یہ عذر دو چار کلومیٹر پرے کے اہل کوفہ پر لاگو نہیں ہوتا۔ پر چلیے اس دور کی سفاک شاہی کے پیش نظر اہل کوفہ کا پردہ رکھ لیتے ہیں)۔

بھانت بھانت کے لشکروں کا ایک ایسا گھمسان ہے کہ نہیں معلوم پڑ رہا کہ یزیدی کون ہے اور حسینی کون ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اکسٹھ ہجری میں حسین (ع) نہیں انسانیت شہید ہوئی تھی لہذا کربلا کسی ایک واقعہ کا نہیں تسلسل کا نام ہے۔ جیسے بے حسی ایک تسلسل کا نام ہے۔ اسی تسلسل کی کڑئیاں اپنے ہاں سانحہ خروٹ آباد سے لے کر سانحہ ساہیوال تک پھیلی ہیں اور ایسی خبریں جب ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں تو آج کا انسان بھی ڈیڑھ ہزار برس پہلے جیسے انسانوں کی مانند چند غمگین جملوں کا تبادلہ کرتا ہے اور زندگی پھر ڈھرے پر آ جاتی ہے۔

جس دیس میں رہتا ہوں یہاں بارہ ماہ محرم ہے۔ آئے روز بے جرم و خطا بنام مذہب و مسلک، بنام سیاست، بنام قومیت، بنام رسم و رواج، بنام رنگ و نسل، قتل ہونے والوں سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ان کے واسطے کوئی علم اٹھائے سینہ کوبی کرتے نہیں نکلتا۔ آج یہ تو سب کو معلوم ہے کہ خانوادہ رسول(ص) کو کیوں دشت کربلا میں تہہ تیغ کیا گیا مگر آج ملک عزیز میں جو مر رہا ہے اسے معلوم نہیں کہ کیوں مر رہا ہے اور جو مار رہا ہے وہ بھی لاعلم ہے کہ کیوں مار رہا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اکسٹھ ہجری میں حسین (ع) نہیں انسانیت شہید ہوئی تھی۔ لہذا کربلا کسی ایک واقعہ کا نہیں تسلسل کا نام ہے۔ جیسے بے حسی ایک تسلسل کا نام ہے۔ کاش یزید کسی ایک ہی شخص کا نام ہوتا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا مگر یہ تو ایک کیفیت ہے۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan