Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hurriyat Ka Paigham

Hurriyat Ka Paigham

حریت کا پیغام

طالب جوہری مرحوم کا خوبصورت جملہ تھا "تم نے گریہ کیا۔ مجلس تمام ہوئی"۔ شام غریباں آ گئی۔ آل محمد کے یتیموں، بے کسوں، لاوارثوں، بیواؤں کی شام۔ اس شام میں البتہ زینب بنتِ علی نے وہ دِیا روشن کیا جس کی روشنی سے اسلام نے جِلا پائی اور دین محمد عربی صلے اللہ علیہ و آل وسلم کو تازہ روح بخشی۔ اس زمانے میں دین اسلام ملوکیت کے زیرِ اثر آتے کہیں کھو چکا تھا۔ دین کے لباس کو الٹا پہن لیا گیا تھا۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا جا رہا تھا۔ اس دور کی اسٹیبلشمنٹ غرور شاہی میں مبتلا ہو کر ہر حد نبوی کو روند رہی تھی اور پھر مدینے سے نواسہ رسول اٹھا۔ جن کے کاندھے پر یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی کہ اپنے نانا کا دین پامال ہونے سے بچا سکے تو بچا لے۔

اس قافلہ سالار نے ردائے زینب کو پرچم بنایا۔ جانوں کے نذرانے پیش کئیے اور دشتِ کربلا میں ایک شہر آباد کر دیا۔ یہ وہ شہر ہے جو آباد ہی اس وجہ سے ہوا کہ یہاں خانوادہ رسول نے قیام فرمایا اور باطل سے نبرد آزما ہوئے۔ اس سے قبل تو دشتِ کربلا میں دھول اڑتی تھی۔ بیابانی تھی، سنسانیت تھی، وحشت تھی۔

جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو علم و تعزیہ و ذوالجناح کے جلوسوں میں ابا ساتھ لے جایا کرتے۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ یہ جلوس بیادِ شہید کربلا میں نکلتے ہیں مگر بچپن کا ذہن فلسفہ شہادت سے آشنا نہیں ہوا تھا۔ کچھ عمر بڑھی تو تجسس نے دماغ میں خیمے لگا لیے۔ تاریخ کے اوراق سے سچ کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ تلاش بہت مشقت طلب امر تھا۔ تاریخ سے سچ کو تلاشنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاشنے جیسا ثابت ہوا۔

جوں جوں تاریخ کے باب کھُلتے گئے توں توں مجھے حیرت کا سامنا ہوتا رہا۔ جن آنکھوں میں کبھی اشک رہا کرتے تھے ان میں حیرانی اترنے لگی۔ ایک وقت وہ آیا کہ میں پریشان ہو کر مذہب ہی تیاگ دینے کی سوچی کہ یہ سب داستانِ مبہم ہے۔ ابن اسحاق دو سو سال بعد تاریخ کو سیرتِ النبی کے عنوان سے لکھ رہا ہے تو ان دو سو سالوں کے پن ڈراپ سائلنس اور بلیک آؤٹ میں کیا کیا نہ ہو سکتا ہے؟ خاص کر جب اموی دور حکومت گزر چکا ہو جس میں سیاسی انجینرئنگ کی گئی۔

کچھ عرصہ سب کچھ بھول بھال کر میں اپنی زندگی کی دوڑ میں ہانپتا رہا۔ جوانی آئی تو ساتھ ذمے داریوں کا بوجھ بھی لائی۔ میرے سامنے ذمہ داریوں کا ایک کوہ ہمالیہ تھا جسے مجھے ہر حال میں سر کرنا تھا۔ کچھ سال والدین کی بیماری جھیلتے گزر گئے اور بلآخر اللہ نے بصورتِ انتقال مکمل شفا دے دی۔ والدین کے انتقال کے بعد ذاتی زندگی کے گھریلو مسائل سر اٹھانے لگے۔ وقت نے مہلت ہی نہ دی کہ تلاش جاری رکھی جائے۔

بہت سالوں بعد پھر سے ایک دن خیال آیا کہ اپنے اندر جو خیال رہ رہ کر سر اٹھاتا ہے اس کی تشفی کو ایک بار پھر کوشش کر لوں۔ بہت پریشان حالات و حالت میں مذہبی مطالعہ شروع کیا اور نتیجہ یہ نکالا کہ جب کربلا میں صفیں جمیں تو بات کھُل کر سامنے آ گئی۔ کوئی حیلئہ نفاق کارگر نہیں رہا۔ یہ حسین ابن علی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے سیاہ و سفید کو الگ کرکے رکھ دیا۔ نقاب الٹ دئیے۔ شکلیں واضح کر دیں۔ کربلا کی جنگ راتوں رات پیش آنے والا سانحہ نہیں تھا نہ ہی چند ماہ میں پیدا ہونے والی صورتحال کا انجام تھا۔ اس جنگ کے پس منظر میں لمبی ہسٹری تھی۔ پرانی جنگیں تھیں۔

یہاں مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر میں تاریخ نہ کھنگالتا تو شاید دین سے بیزار ہو چکا ہوتا یا مکمل انکاری۔ امت کے مابین شیعہ و سنی کی تفریق سے میں اس لیے نکل چکا ہوں کہ جان چکا ہوں دونوں جوانب گروہِ خارجی (خوارج) نے ایسی زک پہنچائی ہے جس کے سبب امت آپس میں دست و گریبان ہے اور رہے گی۔ وجہ یہ کہ اب کتابوں کے منہ نفرت سے بھرے جا چکے ہیں۔ کوئی حقیقت کا متلاشی نہیں رہا۔ حقیقت شاید اس کے الٹ بھی ہو مگر تلاشو تو سہی۔ جب تلاشنے لگو گے تب خود ہی آشکار ہو جائے گا۔

حریت کا پیغام ہی دین اسلام کی اساس ہے۔ یہ انسانوں کو آزاد کرنے ہی آیا تھا۔ حریت کے پیغام کو اہل تشیع نے سوگ میں بدل کر بس عزاداری کا دامن تھام لیا۔ اہلسنت نے اس پیغام کو ختم، قل خوانی، خانقاہی، قبرستانوں کے وزٹ و محافل سے بدل کر خود کی تسکین کا سامان کر لیا۔ رہ گیا دین اور اس کی روح۔ وہ تلاشنے والے کو ہی ملتی ہے۔ شام غریباں زینب بنت علی کی سالاری اور لاچاری کی شام ہے۔ مگر پھر تاریخ بتاتی ہے کہ بی بی زینب کا دربار یزید میں دیا گیا خطبہ وہ خطبہ ثابت ہوا جس نے شام غریباں کا منظر بدل کر رکھ دیا اور اس شام کی دہشت کو دین اور حسینیت کی ابدی فتح میں تبدیل کر دیا۔

Check Also

Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (11)

By Haider Javed Syed