Doctor Tahira Kazmi
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ کا ذاتی طور پر، پروفیشنل طور پر اور بطور عورت میں احترام کرتا ہوں۔ میری ان سے مسقط میں ایک عمومی ملاقات ہے جو ایک دوست کے منعقد کردہ ایونٹ پر ہوئی اور وہ سرسری سی ملاقات تھی۔ ان کے نظریات یا خیالات پر میں نے کبھی کوئی رائے نہیں دی۔ نہ اچھی نہ بری۔ میں اس خیال کا ہوں کہ انسان کو سپیس دیں یہ اس کا حق ہے وہ جو سوچتا ہے جو کہنا چاہتا ہے وہ کہہ دے۔ اختلاف رائے کا حق قاری کا ہے مگر بدتمیزی کا حق کسی کا نہیں ہوتا۔
میرے حلقہ احباب میں بہت سے دوست ان سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور بعض اوقات اپنی رائے کا اظہار قطعیت اور شدت سے کر دیتے ہیں جس سے اگلے کی توہین کا پہلو نکلنے لگتا ہے اور پھر اپنی فالؤنگ کو بھی کھُلی چھوٹ آزادی اظہار کے نام پر دے دیتے ہیں اور فالونگ دو قدم آگے بڑھ کر ذاتی حملے نما کمنٹس کرنے لگتی ہے۔ یہ بھی کوئی اچھا پہلو نہیں مگر بدقسمتی سے ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ چونکہ پاکستان میں نہیں ہوتیں اس لیے ان کے ساتھ سامنے بیٹھ کر فیمن ازم پر گفتگو نہیں ہو سکتی البتہ کوئی فیمنسٹ نظرئیے کی پرزور حامی خاتون جو معاشرے میں اپنی اسی حوالے سے پہچان رکھتیں ہوں اور سماج ان کو فیمنسٹ تحریک سے منسلک دیکھتا ہو وہ گفتگو کرنا چاہیں تو میں حاضر ہوں۔ گفتگو میری ادب آداب کے دائرے میں رہتی ہے اور مہمان کو میں عزت دیتا ہوں اسے شرمندہ نہیں کرتا۔ البتہ اس موضوع پر گفتگو کرتے کچھ سنجیدہ اور سیدھے سوالات ہوں گے اور توقع رکھوں گا کہ ان کا جواب بھی سیدھا مل پائے۔
فیمنسٹ تحریک کا میں مخالف نہیں۔ عورتوں کے حقوق پر بہت لکھ چکا۔ مجھے باقاعدہ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ تحریک حقوق نسواں کا بھی اور عورتوں کے سماجی حقوق کا بھی میں پرزور حامی ہوں۔ مجھے بس پاکستانی معاشرے میں پھیلتی اس تحریک، اس کے طرز عمل اور اس کے نعروں پر کچھ سوالات اٹھانے ہیں اور جاننا ہے کہ پاکستان میں فیمن ازم کا حال ایسا کیوں ہے۔ کیا فیمن ازم مرد مار یا مرد کُش مہم کا نام ہے۔
سماج میں اس نام پر جو کچھ پھیل چکا ہے اور جس قدر جنس کی بنیاد پر نفرت ابھاری جا رہی ہے اس پر گفتگو کرنا چاہوں گا تاکہ سننے والوں کو شاید کچھ احساس ہو کہ کہیں کچھ گڑبڑ فیمن ازم میں ہے یا واقعی مرد ہی سارے قصور وار ہیں۔ کیا عورت کا عورت ہونا جنس کی برتری ظاہر کرتا ہے اور اس کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ جو چاہے جیسا چاہے بول دے یا پھر فیمن ازم کا مطلب برابری کے حقوق ہیں اور تحریک اس واسطے اُبھری کہ خواتین کو مرد برابر حقوق ملنا چاہئیے۔ کیا مرد کا کہا سب رد ہے اور عورت کا کہا سب درست۔ اور کیا ہمدردی حاصل کرنے کی چاہ میں کچھ لوگوں نے اس معاشرے میں عورت کارڈ کا استعمال کرکے گُل نہیں کھلائے۔ ان کی کس فیمنسٹ گروپ نے مذمت کی۔ کیا عدم برداشت کا کلچر صرف جنس مخالف میں ہے یا دونوں طرف ہے۔ کیا ایکشن ہمیشہ مرد لیتا ہے اور ری ایکشن عورت دیتی ہے یا اب وہ زمانہ آ گیا کہ ایکشن عورت لینے لگی اور ری ایکشن مرد دینے لگے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بس ایسے ہی ہلکے پھلکے سوالات۔
اور ہاں۔ اہم سوال۔ جنس کی بنیاد پر کھڑی تحریکوں میں وہ چاہے فیمن ازم ہو یا اینٹی فیمن ازم، ان کے علمبردار یا روح رواں یا توانا آوازوں کی اکثریت Sadistic behaviour کا شکار کیوں محسوس ہوتی ہے؟