Dekhna Bhi Jurm Hai
دیکھنا بھی جرم ہے
ہمارے ٹین ایج بچوں یا نسل کا المیہ یہ ہے کہ اگر ان کے والدین خود ان کی تربیت پر توجہ نہیں دیں گے تو پھر سیاست سے لے کر معاشرت اور مذہب سے لے کر معیشت تک ایسی ملغوبہ نسل تیار ہوگی جو مستقبل میں عضو معطل ہوگی۔ دنیا میں اس کی کوئی کھپت ہوگی نہ اس کو تسلیم کرنے کو بیرونی دنیا تیار ہوگی۔ والدین کے پاس وقت نہیں ہے انہوں نے بچوں کو اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے نتیجتاً ہمارے سامنے وہ کچھ آ رہا ہے جو کسی صورت سراہے جانے کے قابل نہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ایک چکر لگا کر نوجوانوں کا رجحان دیکھ لیجئیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں نوجوانوں کی تربیت ان کے والدین پر کہیں زیادہ فرض ہو چکی ہے۔ ہاں بشرطیکہ والدین بھی باشعور ہوں اور اچھے برے کی واضح تفریق کرنے کے اہل ہوں۔ ورنہ یہ نسل ساحل عدیم سے دین سیکھے گی۔ خلیل قمر سے اخلاقیات۔ ننھے پروفیسر سے سماجیات۔ اوریا مقبول سے مذہب و سیاست کا امتزاج۔ اور ان جیسے کئیں لوگوں سے جو سوشل میڈیا و نیشنل میڈیا پر اپنے افکار پھیلانے میں مکمل آزاد ہیں ان سب سے سیکھے گی اور یوں ابنارملٹی کو نارمل سمجھنے لگے گی۔
یہ ایک خطرناک روش ہے جس پر سوسائٹی چل رہی ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسے تمام لوگ متروک یا معطل ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں یہی کچھ بکتا ہے۔ یہ ہر نسل کا المیہ رہا ہے۔ یوں نہیں کہ میری نسل کے لوگ یا میرے والدین کی نسل کوئی بہت انٹلکچوئل نسل تھی یا بہترین لوگ تھے۔ مگر جیسے بھی تھے بات سننے اور بات سمجھنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اب تو بس شٹ آپ کا زمانہ ہے۔ جو میں نے کہہ دیا وہی حق ہے اور بس۔
میری نسل کو بھی وہ لٹریچر دیا گیا جس کو پڑھ کر کئی حجازی پیدا ہوئے کئی بابے پیدا ہوئے۔ ہمیں بھی صوفیوں نے پڑھایا کہ "پاکستان نور ہے نور کو زوال نہیں۔ "۔ ہمیں کہا گیا " حاکم اولیٰ الامر ہوتا ہے اس کی اطاعت کا حکم ہے۔ "۔ وہ تو کچھ شعور آیا اور کچھ حالات ایسے پیش آ گئے کہ مجھ جیسے لوگوں کی عقل ٹھکانے آ گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم جیسوں کی خوش بختی یہ کہ ہمیں دیر سے ہی سہی مگر معلوم ہوگیا کہ سید سبط حسن، علی عباس جلالپوری، سعادت حسن منٹو، ناصر کاظمی، فیض، قرۃ العین حیدر، سمیت چند شخصیات ایسی بھی تھیں جو سماج کا پوسٹ مارٹم کر رہی تھیں اور غلط کو صحیح سے الگ کر رہی تھیں۔
پھر عالمی لٹریچر نے معاشرت تا معیشت کے بند ابواب کھولے۔ سفر نے انہیں پرکھنے کا موقع عطا کیا۔ رفتہ رفتہ سمجھ آتی گئی۔ بھری دنیا میں کوئی نظریہ، فکر، سوچ اٹل نہیں نہ ہی کچھ حرفِ آخر ہے۔ جیسے جیسے انسان کو شعور آتا جاتا ہے اس کے سامنے اس کے بنائے بُت ٹوٹ کر گرتے جاتے ہیں۔ یہ ارتقاء کا عمل ہے۔ دیر بدیر ہر انسان نے اس عمل سے گزرنا ہے۔ اس کو شعور ملنا ہے (اگر وہ کوشش کرے اور اپنے مغز کا استعمال کرے)۔ اس کے اپنے نظریات، افکار، خیالات وقت کے ساتھ تجربات و حادثات کی روشنی میں بدلنے ہیں۔ اگر آپ انسان ہیں تو آپ نے ان تغیرات سے گزرنا ہی گزرنا ہے اور اگر آپ کھوتے ہیں تو ساری عمر اپنے پچھواڑے لاتیں ہی مارتے گذار سکتے ہیں۔
آپ اپنے گھر کی بیٹھک، اپنے روزمرہ کے ملنے والوں، دوستوں کے حصار، اپنے شہر کی حدود، اپنے صوبے کی حدود، اپنے ملک کی سرحد سے باہر نکل کر دنیا کو دیکھیں۔ مختلف رنگ و نسل و مذاہب کے لوگوں سے ملیں۔ مختلف زمان و مکان میں سفر کریں۔ مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا وہ نہیں جو گھر کی بیٹھک سے نظر آتی تھی۔ دنیا وہ نہیں جو ارد گرد کے ملنے والوں نے دکھائی تھی۔ دنیا تو دنیا حتیٰ کہ مذہب بھی وہ نہیں جو گھُٹی میں گھوٹ کر پلایا گیا تھا۔ جو محلے کی مسجد کے مولوی نے سکھایا تھا۔ نہ ہی وہ ہے جو یوٹیوب پر فلاں سکالر نے تعلیم کیا ہے۔ انسان جب تک ایک دائرے کے سفر میں رہتا ہے وہ وہی دیکھتا ہے جو دائرے کے اندر اسے دکھائی پڑتا رہتا ہے۔ آپ خلا سے زمین کو دیکھنا سیکھیں گے تو پھر آپ کئی سال سوچ و فکر میں مبتلا ہو کر زمین سے خلا کو ہی گھورتے رہیں گے اور تب ہی آپ پر نئی سوچ اُترے گی۔ علم کے باب کھلیں گے اور تب ہی آپ ذہنی ارتقاء سے گزرتے ہوئے بلآخر ایسے شانت ہو جائیں گے جیسے گونگے کو چپ لگ جائے۔
آپ اپنی مخصوص مذہبی و مسلکی، سیاسی و سماجی، فکری و تہذیبی عینک اُتار کر مختلف طبقہ ہائے فکرکے لوگوں کو دیکھیں، سُنیں، پڑھیں۔ پھر عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو آپ کا ذہن نتیجہ اخذ کرے اس پر یقین کریں۔ کم سے کم اس طرح آپ کو خود پر اعتماد تو ہوگا کہ جو میں سوچتا ہوں یا جس پر عمل کرتا ہوں وہ میرے اپنے بھیجے سے اخذ کیا گیا ہے نہ کہ کسی اور کا پلایا ہوا ہے۔ کم از کم اچھا بُرا جتنا بھی دماغ آپ کا ہے آپ کا اپنا تو ہوگا۔ کسی اور کے ہاتھوں ہیک شدہ دماغ کے مالک نہ بنیں۔ زندگی مختصر ہے۔ اس کو اپنی سوچ کے مطابق بسر کریں نہ کہ کسی اور کی سوچ کے زیرِ اثر گذاریں۔
یہ اتنا مشقت والا کام نہیں بس اپنے دماغ کی جالا بند کھڑکی کو کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گوتم بُدھ کا ایک قول ہے " اس پر کبھی یقین نہ کرو جو کہے کہ میں نے سچ کو پا لیا۔ اس پر ضرور یقین کرو جو کہے کہ میں سچ کی تلاش میں ہوں"۔ انسان کی ایک بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ جامد نہیں ایک متحرک وجود ہے اور یہی ایک المیہ بھی ہے۔ انسان ارتقاء کے عمل سے گزرتا ہے، یہ پلتا بڑھتا رہتا ہے۔ اس کی پسند ناپسند، سوچ، اقدار، نوکری یا روزی، رشتے ناطے سب کچھ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ میں نے خونی رشتوں کو سفید ہوتے دیکھا ہے۔ سگوں کو بچھڑتے دیکھا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا ہے کہ غیر آ کر انسان کو سہارا بھی دے دیتے ہیں۔ لہذا صاحبو! اپنے خول سے باہر نکلو۔ جذبات کو لگام دو۔ غور و فکر کی عادت اپناؤ۔ درپیش آنے والے معاملات کو غیر جانبدار ہو کر پرکھنا سیکھو۔
کچھ بھی حرفِ آخر نہیں۔ نہ آپ نہ میں نہ ہم سے پہلے گزرے لوگ۔ بلآخر انسان نے اپنی ساری دانائی و دانش سمیت مٹی میں ملنا ہے مگر اس وقت سے قبل تو خود کو مٹی کے بُت نہ بناؤ جو نہ دیکھتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں۔ لکھتے لکھتے احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے
دیکھنا، حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا، اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندان آئین و سیاست!
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد!
زندگی کے نام پر اک عنایت چاہئیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہئیے