Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Dast e Junoon Rahe Na Rahe, Aasteen Rahe

Dast e Junoon Rahe Na Rahe, Aasteen Rahe

دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

ایک دکھ تو یہ بھی ہے کہ جب میں گردش حالات کے سبب اپنے اثاثے بیچ رہا تھا میرے دوست میری مجبوری جانتے ہوئے مجھ سے خرید رہے تھے۔ ایک فوٹوگرافر کے اثاثے ہوتے بھی کیا ہیں؟ کیمرا، لینزز اور ان سے متعلقہ کچھ سامان۔ میں پھر بھی دوست مانتا ہوں کہ آج کے دور میں یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے بروقت خرید لئے ورنہ مجھے مزید پریشانی ہوتی لہذا کچھ تو پریشانی سے بچایا مجھے۔۔

پروردگار کا شکر ہے کہ اس نے قلم بھی بخشا اور میں نے وہ بیچا نہیں۔ چند سال قبل پرویز رشید صاحب نے مجھے اسلام آباد بلوایا (تب وہ وفاقی وزیر تھے) اور میرے فن کی تعریف کر چکنے کے بعد بڑے ہلکے پھلکے انداز میں بولے "آپ کا ڈان میں نیلم ویلی پر آرٹیکل پڑھا تھا میں آپ کو وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ نیلم جہلم پراجیکٹ پر کام تیزی سے جاری ہے اور ہم اس کو کامیابی سے مکمل کرکے جائیں گے، آپ معلوم نہیں کب گئے سردیوں میں کام زرا رک جاتا ہے اس لئے آپ کو نظر نہیں آیا ہوگا" پھر بولے "آپ نے کبھی سیاسی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ڈان میں نہیں لکھنے کا سوچا؟" میں مسکرا دیا اور بڑی عزت سے بولا "سر، میں نے نیلم جہلم پراجیکٹ جولائی کی 28 تاریخ کو وزٹ کیا تھا اور جو دیکھا ایک سیاح کی حیثیت سے لکھ ڈالا اور سر میں سیاسی معاملات پر اپنی رائے ضرور رکھتا ہوں لیکن میں کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بننا چاہتا نہ ان کے واسطے رائے عامہ ہموار کرنا چاہتا ہوں"۔۔

پھر طارق فاطمی صاحب کے کہنے پر اعزاز چوہدری صاحب نے فارن آفس بلایا۔۔ اعزاز چوہدری صاحب تب پروٹوکول آفیسر ٹو پرائم منسٹر تھے۔۔ اس سے قبل معین الحق صاحب چیف پروٹوکول آفیسر ٹو پرائم منسٹر نواز شریف تھے۔ انہوں نے ایک بار مجھے بلا کر چائے پلائی اور میرے کام کی بے انتہا تعریف کی۔ بعد ازاں ان کا چارج چوہدری اعزاز صاحب نے سنبھال لیا اور معین الحق صاحب بطور ایمبسیڈر پیرس تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے 23 مارچ یوم پاکستان کے دن ایمبیسی میں ایک ایونٹ منعقد کرنی کی خواہش کا اظہار کیا جس میں میری فوٹوگرافی نمائش شامل تھی۔ ایمبیسی کو میری تصاویر سے مزین کیا گیا اور وہاں بسے پاکستانی بزنس مین، ڈپلومیٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے معتبر لوگ مدعو ہوئے۔ مجھے دعوت نامہ موصول ہوا مگر لیکسن گروپ جس میں تب بطور آئی ٹی نیٹورک انجینیئر نوکری کر رہا تھا وہاں سے مجھے چھٹی نہ مل سکی۔ ان دنوں سیالکوٹ تا نارووال نیٹورک ڈاون جا رہا تھا اور جاب پر مجھ پر شدید دباؤ تھا۔ میں پیرس نہ جا سکا۔

اعزاز چوہدری صاحب نے جب مدعو کیا تو چند تعریفی کلمات بول کر فرمائش داغ دی۔۔ وہ میرا کچھ کام فی سبیل اللہ جذبہ حب الوطنی کے زیر اثر فارن آفس کی آفیشل بک کے لئے چاہتے تھے۔ انہوں نے میری کوئی قیمت نہیں لگائی اور میں مان گیا۔ اسی فارن آفس کی آفیشل کتاب جو حکومت پاکستان کا چہرہ ہے اور جو ہر آنے والے غیر ملکی ایمبسڈر کو پاکستان میں جوائن کرنے پر صدر مملکت کی جانب سے تحفہ بھجوائی جاتی ہے اس میں میرا پاکستان کے شمال پر مبنی کام پبلش ہے۔ اسی فارن آفس کے لئے واشنگٹن، پیرس، بارسلونا، یوکرائن، چائنہ و جاپان کی ایمبیسیز میں اپنا کام سجایا ہے اور کئیں ایمبیسیز سولو ایگزیبیشنز منعقد کر چکی ہیں۔

سنہ 2016 کی یوم آزادی پر مجھے ملیحہ لودھی صاحبہ نے کانٹیکٹ کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ حکومت پاکستان کی خواہش ہے اس یوم آزادی پر نیویارک ٹائمز اسکوئر پر نصب دنیا کی سب سے بڑی سکرین NASDQ پر پاکستان کی خوبصورت تصاویر نشر کی جائیں۔ اس سلسلے میں انتظامات کر لیے گئے ہیں ہمیں آپ سے آپ کا کام چاہئیے ہوگا۔ میں نے پاکستان کی خاطر ان کو بھیج دیا۔ وہ ساری رات دنیا کی سب سے بڑی سکرین پر نشر ہوتا رہا۔ اگلے روز مریم نواز صاحبہ نے اس ایونٹ کا حوالہ دے کر ٹویٹ کر دی کہ یہ سب ہماری وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ پاکستان کا چہرہ اس ایونٹ کی صورت دنیا کو دکھایا ہے۔ میں نے وہ پڑھ کے سوچا کہ ٹھیک اے وئی۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔۔

بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو چیز بیچ کر بہت "کمایا" جا سکتا تھا وہ بیچی نہیں اور جو میرے ہنر کا Tool تھا وہ بیچ دیا۔۔

میں سمجھتا ہوں کہ قلم و فن سے وابستہ میرے دوست احباب مجھ سے کہیں زیادہ قابل و جہان دیدہ و موقع شناس ہیں۔ وہ دور کب کا بیت چکا ہے۔ اعزاز چوہدری، طارق فاطمی اور پرویز رشید صاحب سے تب بھی ملاقات ہوئی جب میں گردشِ دوراں سے نکل چکا تھا۔ وہ عزت سے مل لیتے ہیں اور اس کی واحد وجہ شاید یہی ہو کہ میں نے ان سب سے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ رہے وہ دوست جنہوں نے مجھ سے ٹکے کے بھاؤ میرے مشکل وقت میں میرا سامان خریدا تھا ان کو کوئی نہیں جان سکا اور ان کے مشکل وقت پر میں ان دونوں کے کام آیا۔ ان سے کچھ نہیں خریدا بس بلا کسی شرط و خریداری کے ان کی مدد کر دی تھی۔

مجھے وقتی طور پر گردش حالات کے سبب جو سہنا پڑا وہ سہہ چکا ہوں۔ وقت گزر جاتا ہے بس اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اب جب مجھے کوئی کمی نہیں سب کچھ ہے، کبھی کبھی گزرا وقت یاد آتا ہے تو میں عابدہ پروین کی آواز میں غزل سنتا ہوں

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza