Bujhte Charaghon Ka Dhuan
بجھتے کا دھواں
ابا مرحوم کے ایک کزن ہوا کرتے تھے مقصود شاہ صاحب۔ رشتے میں وہ میرے چچا ہی ہوئے۔ ابا گاؤں چھوڑ کر سیالکوٹ شہر میں آباد ہو گئے۔ مقصود شاہ گاؤں میں رہ گئے۔ سیالکوٹ شہر آنے کی وجہ خاندانی تنازعات تھے۔ زمینوں کے رولے تھے۔ ابا جی نے خاندان سے جان چھڑوائی اور اپنے حصے کی زمین بھی چھوڑ آئے۔ اس پر مقصود شاہ صاحب نے قبضہ کر رکھا تھا۔ پرکھوں کی زمین تھی جس کی واضح تقسیم نہیں ہو سکی تھی۔ ان تنازعات کے سبب ابا نے خاندان بھی چھوڑ دیا اور گاؤں کو بھی خیر آباد کہہ دیا۔ وہ اپنی فیملی کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ میری پیدائش سے قبل ہی وہ شہر میں منتقل ہو گئے اور یہاں سے کاروبار شروع کیا۔ امارت کی انتہا تک پہنچے۔ اور پھر کاروبار ٹھپ ہوگیا۔
کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ مجھے آج تک نہیں معلوم۔ جب پوچھتا ابا کا جواب آتا "بھروسہ بڑی کتی شے ہے۔ تجھے نہ سمجھ آنی ہے نہ تو ان مسئلوں میں پڑ۔ اپنی پڑھائی دیکھ"۔ اور اس کے بعد کبھی پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اماں البتہ بتاتیں تھیں کہ منشی نے دھوکا کیا تھا۔ وہ منشی جس کو بچوں کی طرح پالا تھا وہ کاروبار سے پیسہ لوٹ کر نکل لیا۔ الٹا آٹھ لاکھ کا قرضہ چڑھ گیا۔ ابا کے اینٹوں کے بھٹے ہوا کرتے تھے۔ یہ چار بھٹے تھے۔ اینٹ کے کاروبار میں ابا کا سکہ چلتا تھا۔ اس کی وجہ اینٹ کا معیار تھا۔ کوئلہ کوئٹہ سے آیا کرتا اور ٹرکوں کے ٹرک پہنچتے۔ کوئٹہ کے پٹھان کوئلہ سپلائر تھے۔ منشی نے نجانے کیا کر دیا کہ پٹھانوں کے کوئلے کی پیمنٹس بھی نہ ہو سکیں اور ان کا آٹھ لاکھ کا بل واجب الادا رہ گیا۔ میں بات کر رہا ہوں سنہ 1989 کی۔ اس دور میں آٹھ لاکھ ایک رقم ہوا کرتی تھی۔
حالات بگڑے تو مقصود شاہ نے ہمارے ہاں چکر لگانے شروع کر دئیے۔ شاہ جی نے گاؤں میں ڈیرہ بنا رکھا تھا۔ دو گھوڑے شوقیہ پالے ہوئے تھے۔ ایک ٹانگہ بنا رکھا تھا جو شوقیہ استعمال کرتے۔ کبھی تو وہ ٹانگہ پر گاؤں سے شہر آ جاتے اور کبھی بس گھوڑے پر کاٹھی ڈالتے اور اسے بھگاتے شہر آ جاتے۔ ابا اور مقصود شاہ کا بڑا عجب تعلق تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ Love and Hate ریلیشن تھا۔ کزن ہونے کے سبب ماضی میں بھائیوں سے بڑھ کر قربت رہی تھی۔ اس قدر قربت کہ جوانی میں گاؤں کے ایک بندے سے لڑائی ہوئی۔ مقصود چچا نے بدلہ لینے کو اس کے سر پر ڈانگ مار دی۔ سر پھٹ گیا۔ اقدام قتل کا مقدمہ زیر دفعہ 307 درج ہوا تو ابا نے الزام اپنے سر لے لیا۔ قبول جرم کر لیا۔ مقصود چچا کی مقدمے سے جان بخشی ہوگئی۔ ابا کو سات سال قید ہوگئی۔ انہوں نے چار سال کاٹی اور باقی سزا معاف ہوگئی۔ جیل میں وہ تعلیم دیتے تھے۔ ٹیچر تھے۔ اس وجہ سے سزا معاف ہوتی رہی۔
اسی چچا نے پھر زمینیں ہتھیا لیں اور قبضہ کرکے کاشتکاری کرنے لگے۔ ابا دلبرداشتہ ہو کر شہر منتقل ہو گئے۔ جب ہمارے حالات بگڑے تب مقصود چچا کا آنا جانا شروع ہوا۔ جب چکر لگاتے مجھے گھوڑے پر آگے بٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے۔ میرے ساتھ ان کا بڑا محبت کا رشتہ تھا۔ چچا کے اندر کہیں Guilt موجود تھا جس کی تلافی کرنے کو وہ جاتے جاتے کبھی دس ہزار، کبھی پندرہ ہزار کبھی بیس ہزار کی رقم سیٹ پر چھوڑ جاتے۔ ان کو معلوم تھا کہ ابا نے قبول نہیں کرنے۔ اگلی بار جب آتے تو ابا اس رقم کو ان کی جھولی میں ڈالتے اور کہتے" اب کبھی واپس نہ آنا یہاں اور آنا تو یہ حرکت نہ کرنا تیرا میرا تعلق ختم ہے۔ " مگر کبھی ان کو گھر سے نہ نکالا۔ مقصود چچا جاتے جاتے پھر وہی حرکت کر جاتے یعنی پیسے چھوڑ جاتے۔ یہ لو اینڈ ہیٹ ریلیشن اسی طرح چلتا رہا۔ پھر ابا کا انتقال ہوگیا۔
انتقال سے قبل ابا نے ایک دن مجھے کہا " گاؤں سے تیرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کبھی وہاں نہ جانا اور کسی چچا سے کچھ نہ مانگنا۔ میری وہاں کوئی زمین نہیں ہے۔ آئی سمجھ؟"۔ مجھے سے وعدہ لیا۔ کچھ ماہ بعد وہ جگر کے سرطان کے سبب چل بسے۔
مقصود چچا کا ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ نشے کی لت میں پڑ گیا۔ پاؤڈر پینے لگا۔ مقصود چچا کا انتقال ابا کے انتقال کے اگلے سال ہی ہوگیا۔ ہئیرونچی پُوت نے رفتہ رفتہ سب اثاثے بیچے۔ پانچ سال کے اندر ہی نشے کی لثرت سے مر گیا۔ شادی اس نے کی نہیں تھی۔ باپ کا سارا تڑکا وہ لٹا بیٹھا تھا۔ گھوڑے اس نے کب کے بیچ ڈالے تھے۔ صرف بچا رہ گیا تو ٹانگہ جو آخری بار میں نے اس کے جنازے میں شرکت کرتے دیکھا تھا۔ وہ بھی بعد ازاں گاؤں کا ایک بندہ لے گیا۔ اس نے قرض کی مد میں وہ رکھ لیا۔
آج بیٹھے بیٹھے ماضی سے ایک جھلک مقصود شاہ کی یاد آ گئی۔ وہ گھوڑے یاد آ گئے۔ اور سفید ہوتا خون بھی ساتھ ہی یاد آیا۔ وقت کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے اور یہی المیہ بھی۔ آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں، دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلا تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔