Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bharat, Iran Aur Afghanistan Mein Tabdeel Hota Manzar

Bharat, Iran Aur Afghanistan Mein Tabdeel Hota Manzar

بھارت، ایران اور افغانستان میں تبدیل ہوتا منظر

بھارتی انتخابات کے نتائج مودی اور اس کی جماعت کے لیے دھچکا بنے ہیں۔ گوکہ مودی تیسری بار وزیراعظم بن سکتا ہے مگر اس بار اس کی جماعت سادہ اکثریت سے محروم رہی ہے اور اتحادی حکومت بننے جا رہی ہے جو بمشکل پچیس سے تیس اتحادی جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ہوگی۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے ان انتخابات میں غیر معمولی کامیابی سمیٹی ہے۔ مودی سرکار اس بار انڈر پریشر رہے گی اور کبھی بھی حالات بدل سکتے ہیں۔ اتحادیوں کے چھوڑنے کے صورت جنتا پارٹی کی سرکار اپوزیشن بن سکتی ہے اور کانگریس حکومت میں آ سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی نے گزشتہ دس سالوں میں اپنے ملک بھارت کو معاشی طور پر انتہائی مضبوط بنایا ہے اور سفارتکاری کے شعبے میں انتہائی فعال کردار ادا کیا ہے۔ آج کا بھارت دس سال قبل کے بھارت سے سو گنا بہتر پوزیشن میں ہے۔ عالمی برادری میں اس نے اپنا مقام بنایا ہے اور من الحیث القوم بھارتیوں کی شناخت و توقیر میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ مگر وہیں بھارت اپنے آئین یعنی سیکولر بھارت سے انحراف کرتا رہا ہے۔ ہندوانہ سوچ پروان چڑھائی گئی ہے اور ہندوازم کے نام پر اس ملک میں مذہبی عصبیت ابھاری گئی ہے جس کا نتیجہ وہاں ہندو مسلح جتھوں کی صورت سامنے آیا۔ کانگریس نے یہ الیکشن اسی بنیاد پر لڑا کہ وہ متعصبانہ ہندو سوچ کو آئین پر حاوی نہیں ہونے دی گی۔ راہول گاندھی نے زبردست مہم چلائی ہے۔ جس کا نتیجہ کانگریس کے حق میں بہترین آیا ہے۔

دوسری جانب ایران میں محمد مخبر کو صدر بنا دیا گیا ہے اور انقلاب ایران کے بعد پہلی بار وہاں سنی مسلک کا کوئی شخص اہم عہدے پر تعینات ہوا ہے۔ تہران اور مضافات کی فضاء انقلاب ایران کے بعد سے مسلسل بدل رہی تھی۔ آج کی ایرانی نسل ملاؤں سے آزادی چاہتی ہے اس منظرنامے کو دیکھتے ایرانی ریاست نے اپنی بقا کے لیے اپنے تئیں اچھا قدم اٹھایا ہے۔ محمد مخبر نہ مُلا ہے نہ ایرانی ریاست کے مذہب کا نمائندہ ہے۔ وہ ایک مکمل ڈپلومیٹ ہے اور ظاہر ہے اپنے ملک ایران کے ساتھ وفادار ہے۔

افغانستان کی ریاست کے نمائندگان روس سے تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ایران سے ان کے تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ روس وہی ملک ہے جس کے ساتھ "جہاد" کرتے ان کی عمریں گزریں اور ایران وہ ملک ہے جو مذہبی نقطہ نظر سے ان سے کافی دور ہے۔ مگر افغانیوں نے مار کھا کے اور مار کے سیکھ لیا کہ ان کے مفادات ہمسائیوں سے مضبوط تعلقات اور ان سے تجارت سے ہی وابستہ ہیں۔

چائنہ سے کتابی دوستی یوں تو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے مگر پاکستانیوں کو یہ بات کبھی سمجھ نہ آ سکی کہ ریاستوں میں دوستی نہیں ہوتی ریاستوں میں مشترکہ مفادات کے تعلق ہوتے ہیں۔ سی پیک کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جیسے اس میں کک بیکس کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں بالخصوص پراجیکٹس کو جیسے رول بیک کیا گیا اس کے بعد چین نے ون بلٹ ون روڈ مشن کو آگے بڑھایا ہے اور اب وہ گوادر پورٹ یا پاکستان میں سی پیک پراجیکٹس سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ اب ہم اس کی منت کر رہے ہیں اور وہ اپنی نئی راہیں کھول چکا ہے۔

پانچواں ہمسائیہ سمندر ہے۔ وہ ہماری طرح جوں کا توں ہے۔ بلکہ ہماری طرح ہی دن بہ دن گندا ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے۔ آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ ریورس گئیر میں سفر کرتے جا رہے ہیں۔ ارضِ پاکستان سیاسی و معاشی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور ایسا مسلسل کئیں دہائیوں سے جاری ہے۔ آپ حکومتیں بناتے گراتے رہیں۔ اپنی کٹھ پتلیاں لاتے بھیجتے رہیں۔ نظام کو گروی رکھیں۔ پراپرٹی سیکٹر کو فروغ دے کر دیگر انڈسٹریوں بالخصوص پیداواری یونٹس کے گلا گھونٹتے رہیں۔ امپورٹ پر دارومدار رکھیں۔ بندے اٹھائیں۔ بندے نچائیں۔ بندے ماریں۔ جاری رکھیں۔

آسمان نے اس دھرتی کو بہت موقعے دئیے مگر ریاستی اہلکاروں نے خود کو "سیکیورٹی سٹیٹ" بنانے پر ہی توجہ دئے رکھی۔ سازشی تھیوریز میں گھرے رہے۔ یہ ملک صرف و صرف سازشی تھیوریز میں ہی خود کفیل بن سکا ہے۔ جب میسر وقت میں ہوم ورک پورا نہ ہو، ہوم ورک مکمل کروانے والے ابا جی بھی اپنی دیگر مصروفیات میں الجھے ہوں تو پھر ریاست مُنے کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ مُنا کبھی اِدھر چٹکی کاٹتا ہے کبھی اُس کو چکی مارتا ہے، کبھی فیڈر پھینک دیتا ہے اور کبھی جھنجھلانے اور رونے لگتا ہے اور پھر اپنی نالائقیوں کا الزام ہمساؤں اور عالمی برادری پر دھر دیتا ہے۔

خون تھوکے، کبھی روئے، کبھی تقریر کرے
ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے

Check Also

Dil Ka Piyala

By Tauseef Rehmat