Bertrand Russell
بریٹنڈ رُسل
الحاد کے بابائے اعظم بریٹنڈ رُسل نے ہمارے نبی، عیسیٰ، موسیٰ سمیت سکالرز ارسطو، سقراط، گوتم کا انکار کیا اور ان کے فالورز یا مذاہب (بودھ ازم، اسلام، عیسائیت) کو جھوٹی کہانی قرار دیتا ہے۔ مگر وہیں کنفیوشس کی تعریف کرتا ہے کہ اس کے مذہب (تعلیمات) نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ رُسل کے ہاں خدا کا وجود نہیں اس واسطے وہ تمام سامی مذاہب کو رد کرتا ہی ہے ساتھ ہندومت کو بھی رد کرتا ہے۔ ڈاکٹر رُسل کے ہاں مذاہب کلٹ ہیں یا کہانیاں ہیں اور انسان نے اپنی سوچ و فطرت کو "سوٹ" کرتا مذہب اپنایا ہے۔ جو ظلم پر مائل فطرت رکھتا ہے اس نے وہ خدا مانا جو ظالم ہے تاکہ اسے اپنے ظلم کا جواز ملے اور جو رحمدل انسان ہے اس نے اس خدا کو مانا جو رحم کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
جوانی میں میں رُسل کے نظریات سے انسپائر رہا ہوں اور اب بھی اس کے فلسفہ، آرٹ اور سیاسی نظریات کا قائل ہوں مگر اس کے الحادی نظرئیے کا قائل نہیں۔ اس کی ٹھوس وجہ اسی کے اپنی افکار سے ملتی ہے۔ ابتداء میں ڈاکٹر رُسل کے الحادی نظریات مائل کرتے ہیں مگر وقت کے ساتھ اس کی گرہیں بھی کھُل کر سامنے آ جاتیں ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اس معاملے میں بدترین کنفیوژن کا شکار رہا ہے۔ ٹھیک ہے مذاہب میں کہانیاں ہوں گی یا بعد ازاں مقلدین کی جانب سے شامل کی گئیں ہوں گی مگر خدا کے وجود کو مسترد کرنا عقل سے بالا ہے۔ اس کی دلیل ناقص ہے۔
مگر ہمارے ہاں چونکہ الحاد کے داعی آج تک بڑے نہیں ہو سکے وہ رُسل کے رومانس میں ہی مبتلا رہ گئے ہیں بس۔ الحاد کوئی مذہب نہیں بلکہ ترک مذہب ہے مگر پاکستانی ملحدوں نے اسے شدت پسندی کا جامہ اوڑھا کر مذہب کی صورت ہی دے دی ہے۔ وہ بھی ویسے ہی متشدد افکار پال چکے ہیں جیسے مذاہب کے ماننے والوں کا شدت پسند طبقہ پال لیتا ہے۔
ڈاکٹر رُسل اپنی کتاب "میں کرسچن کیوں نہیں ہوا" کے گیارہویں باب میں لکھتا ہے۔
"دنیا کے تمام بڑے مذاہب، اسلام، بودھ ازم، عیسائیت، ہندومت اور کیمونزم (حالانکہ کیمونزم مکمل مذہب نہیں معاشی نظام کا نام ہے اور حیرت انگیز طور پر یہاں جوڈازم / یہودیت کا ذکر نہیں ہے۔) ان سب کو غلط بھی سمجھتا ہوں اور مُضر (harmful) بھی سمجھتا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے ماننے والوں نے کچھ ایسی دلیلیں ایجاد کی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ منطقی دلائل ہیں اور ان سے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام دلائل جس بنیاد پر قائم ہیں وہ ارسطو کی قدیم منطق ہے جس کو اب علمائے منطق رد کر چکے ہیں۔
ان دلائل میں ایک بھاری دلیل ایسی ضرور ہے جو خالص منطقی نہیں مگر جائز دلیل (valid argument) ہو سکتی۔ وہ ہے نظم کائنات کی دلیل (یعنی کائنات میں ایک منظم پیٹرن موجود ہے اور ایک منظم ڈیزائن ہے۔ اگر منظم ہے تو پھر اس کو بنانے والا شعور (خدا) بھی ہوگا) مگر اس دلیل کو ڈارون بالکل ختم کر چکا ہے"۔
نظم کائنات کی دلیل کو رسل نے منطقی طور پر ایک جائز دلیل (valid argument) تسلیم کیا ہے۔ مگر اصولی طور پر اس کی منطقی قبولیت تسلیم کرتے ہوئے رسل کا کہنا ہے کہ ڈارون تھیوری نے اس کی منطقی حیثیت کو برباد کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مذہب کا دعویٰ ہے کہ کائنات میں ایک ڈیزائن پایا جاتا ہے اور یہ نظم اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شعور ہو جس نے اس کو منظم صورت دی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات بے ترتیب انبار کی شکل میں نظر آتی۔
رسل کے نزدیک یہ استدلال اصولی طور پر صحیح ہے۔ مگر پھر وہ کہتا ہے "ڈارون نے حیاتیات کے مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ زندگی کی مختلف اقسام جو منظم اور بامعنی شکل میں زمین پر نظر آتی ہیں وہ دراصل کروڑوں برس میں مادی حالات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً زرافہ کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ بکری جیسے جانور نے طویل فطری عمل کے بعد بخوبی لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کرلی ہے"۔ یہاں مجھے ڈارونزم پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے۔ البتہ میں یہ کہوں گا کہ رسل نے استدلال کی اصولی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے جس بنیاد پر اس کو رد کیا ہے وہ نہایت کمزور ہے۔
پہلی بات یہ کہ ڈارونزم سے کچھ سمجھ آیا ہے تو صرف یہ کہ زندگی کی مختلف اقسام بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ مختلف اقسام مختلف وقتوں میں پائی گئی ہیں۔ نیز یہ ایک خاص طرح کی زمانی ترتیب ہے۔ یعنی زندگی کی سادہ اقسام پہلے اور پیچیدہ اقسام اس کے بعد۔ مگر یہ بات آج بھی قطعی طور پر غیر ثابت شدہ ہے کہ زیادہ پیچیدہ اور بامعنی اقسام دراصل پچھلے زمانہ کی سادہ اقسام حیات ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جو مادی عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر سے خود بخود وجود میں آگئیں۔ پہلی بات تو بلاشبہ مشاہدہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ مگر یہ دوسری بات قطعی طور پر سکالرز یا علماء ارتقاء کا اپنا مفروضہ ہے جس کی بنیاد نہ کسی مشاہدہ پر ہے اور نہ کسی بھی طرح اس کو demonstrate کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ رسل کے استدلال کا جواز اسی دوسرے پہلو کے ثبوت پر موقوف ہے۔
نظریہ ارتقاء کی یہ کمزوری خود ارتقاء کو ماننے والے سکالرز مانتے ہیں۔ مثال کے طور پر سر آرتھر کیتھ نے کہا ہے
Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation, and that is unthinkable
اسی لئے ارتقاء کے مسئلہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک نظریہ ارتقاء اور دوسرے سبب ارتقاء۔ کہا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقاء تو یقینی ہے۔ البتہ سبب ارتقاء ابھی تک لامعلوم ہے۔ ایک نظریہ یقینی کیسے ہوجائے گا جب تک ثابت نہ ہو؟ گویا نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریہ ہے جس کی دلیل تو ابھی دریافت نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود ویسٹرن سکالرز کے نزدیک ثابت شدہ نظریہ کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔۔ ایسے کمزور نظریہ کے حوالہ سے یہ کہنا کہ اس نے مذہب کے استدلال کو برباد کر دیا ہے کس قدر بےبنیاد بات ہے۔
ڈاکٹر رُسل تسلیم کرتا ہے کہ کائنات میں ڈیزائن ہے۔ اسے یہ بھی تسلیم ہے کہ ڈیزائن سے ڈیزائنر کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مگر جب وہ اس کو نہ ماننے کے لئے ڈارونزم کا حوالہ دیتا ہے تو گویا وہ نہایت کمزور بنیاد پر خود اپنے تسلیم شدہ مقدمہ کو رد کررہا ہے، کیونکہ ڈیزائن کا وجود تو متفقہ طور پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ مگر ڈارونزم کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔ اس کا یہ پہلو یقینی طور محض ایک مفروضہ ہے کہ مادی عوامل سے انواع حیات میں بامعنی "ڈیزائن" پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈارونزم ابھی اس قابل نہیں ہو سکا ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی رسل اس دلیل کو رد کر دے۔
باقی ہمارے الحادی بھائی خوش رہیں۔ لگے رہیں۔ سر بریٹنڈ رُسل کی جے ہو۔ چار سو سالہ مغربی تاریخ اور مغربی افکار کی جے ہو۔ کیا کہہ سکتے سوائے اس کے کہ کسی کے منطقی نظریات سے انسپائر یا متاثر ہو کر اس پر ایمان لے آنا کج فہمی ہی ہوتی ہے۔ ان نظریات کا کریٹیکل اینالسس بھی کرنا ہوتا ہے کہ جو شخص جو بات جس بنیاد پر درست مان رہا ہے یا مسترد کر رہا ہے اس بنیاد کی حقیقت کیا ہے۔ کیا وہ بنیاد ثابت شدہ ہے یا محض تھیوری ہے جس کا absolute evidence موجود ہی نہیں۔