Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Be Happy Always

Be Happy Always

بی ہیپی آلویز

عرصہ ہوا میں نے لوگوں سے میل ملاقاتیں ترک کر رکھی ہیں۔ میرا مزاج ہی نہیں بے مقصد بولتے جانا اور ہنس ہنس کے اپنی تعریف سنتے جانا۔ کسی محفل کا مجبوراً حصہ بننا پڑ جائے تو وہاں وقت گزارنا مجبوری ہو جاتا ہے مگر کسی سے خود جا کر ملنا یا اسے ملنے کو کہہ دینا مجھ سے نہیں ہو پاتا۔ اس کو آپ جو بھی سمجھ لیں مگر یہ میری نیچر ہے۔ آدم بیزاری نہیں ہے۔

دنیا گھومتا ہوں، پاکستان کے اندر گھومتا ہوں، کولیگز ہیں، بیشمار سلام دعا والے ہیں لیکن الگ سے کسی کو ملنا میرا مزاج نہیں۔ اور کچھ یوں بھی ہے کہ گر کبھی کسی کی پرزور فرمائش پر اسے بلا بھی لوں تو میرے تجربے کے مطابق مجھے بہت کچھ سہنا پڑ جاتا ہے۔ مصنوعی ہنسنا اور اگلے کی مصنوعی باتیں برداشت کرنا۔ یہاں لوگ یہی تو کرتے ہیں۔ جس سے کسی سبب متاثر ہوتے ہیں اسے مل لیں تو بس سلسلہ مدحت ہی نہیں تھم پاتا۔

ایسے ہی کافی عرصے بعد ایک ڈاکٹر صاحب ملاقات کو آئے۔ میرا ان سے ملاقات کا وعدہ تھا جو میں بوجوہ مصروفیت کئی بار ٹالتا رہا اور پھر سوچا کہ چونکہ کمٹمنٹ ہے اس لیے چائے پر بُلا ہی لوں۔ پہلی ملاقات تھی۔ وہی سلسلہ توصیف و مدحت سرائی چلی۔ کچھ تھمی تو یکدم بولے "آپ کو شوگر ہے۔ آپ کا کام چلتا ہے ناں؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟" میں سمجھا کہ یہ شاید جاننا چاہتے ہیں کہ میری میڈیکل کنڈیشن کے سبب میری جاب و بزنس وغیرہ میں خلل تو نہیں آتا۔

میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پرماننٹ نوکری ہے اب تو، طبعیت جیسی بھی ہو جانا تو پڑتا ہے۔ نوکر کی تے نخرہ کی؟ فوراً قہقہہ برساتے بولے "او نہیں، وہ والا کام نہیں۔ "وہ" والا کام"۔ یعنی وہ میرے یین خانے کی بابت کنسرن تھے۔ آپ خود بتائیں ایسے سوال کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ اب مہمان کو بندہ کیا کہہ سکتا ہے؟ میں نے ہنستے ہوئے کہہ دیا "سر آپ کسی دن ٹرائی لے لیں"۔ شائد اپنے تئیں وہ میرے "ٹنٹنے" کی بابت دل و پیشے سے کنسرن ہوں مگر مجھے یہ مناسب رویہ نہیں لگا۔ پڑھ رہے ہوں تو معذرت۔

پچھلی سردیوں کا ذکر ہے۔ ایک پرستار ملتان سے تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کے خواہاں تھے۔ فون پر بات ہوئی تو میں نے ان کو اپنے گھر مدعو کر لیا، وہ آئے اور باتیں شروع ہوئیں۔ فرمانے لگے "شاہ صاحب آپ قدرت دکھاتے ہیں حلال فوٹوگرافی کرتے ہیں یہ آجکل تو سب غیر شرعی و حرام کر رہے ہیں، میں آپ کا اسی سبب سے فین ہوں"۔ میں نے پہلی بار حلال و حرام فوٹوگرافی میں فرق کو تفصیل سے ان کی زبانی ہی سنا۔ وہ بولتے رہے اور مجھے اندر سے شدید بیزاری ہونے لگی کیونکہ ایسی گفتگو میرے مزاج کے بالکل برعکس ہے خاص کر جب آپ فن و فنکار کو بھی مذہبی تڑکا لگا کر اسی عینک سے دیکھنے لگو۔

بہرحال چونکہ وہ میرے مہمان تھے میں ان کی "شرعی حدود" سنتا اور برداشت کرتا رہا۔ پھر کہنے لگے "شاہ صاحب ایک گلہ ہے آپ سے اگر آپ برا نہ منائیں تو کہوں؟" میں پہلے ہی بیزار تھا، بولا "جی جی کھل کر کہیں سن رہا ہوں"۔ بولے "یہ آپ جو شاعری کرتے یا شیئر کرتے ہیں وہ عشقیہ ٹائپ ہوتی ہے۔ ایسی شاعری کی ممانعت ہے۔ آپ اقبال کو شیئر کیا کریں تفسیر کے ساتھ یا ایسی شاعری جس میں حریت کا سبق ہو اور دین کا پیغام"۔

میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "جی بالکل بلکہ وضو کرکے شیئر کیا کروں تو زیادہ ثواب ملے گا"۔ کچھ دیر مزید ایسی ہی "فلسفیانہ" باتیں کرنے کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو دو شاپنگ بیگ مجھے تھماتے بولے "ایک تو حلوہ جات کا شاپر ہے، ملتانی حلوے لایا ہوں آپ کے لئے۔ دوسرے میں دو کتابیں ہیں۔ آپ پڑھئیے گا"۔ ان کے جانے کے بعد کتابیں دیکھیں، ایک کا نام تھا "دورِ حاضر کے دینی تقاضے"، دوسری تھی "فنون لطیفہ میں اسلامی خطاطی کا مقام"۔

ہمارے فلسفہء حیات کی اُٹھان کچھ ایسی ہے کہ جمالیاتی یا ثقافتی اقدار (آرٹ) اس کی ہٹ لسٹ پر سب سے اونچی جگہ پر ہیں۔ یہ ایک بدنصیب پہلو ہے جس پر مسلم دانشوروں نے کبھی کھُل کر بات نہیں کی۔ ماضی کے حکمران اپنے پیسے کو باغات، محلات اور تعمیرات پر خرچ کرتے رہے اور جس فن نے سب سے زیادہ ترقی پائی وہ قرآنی آیات کی خطاطی تھی۔ موسیقی میں فوک زندہ رہا کیونکہ اس کی جڑیں قوم پرستی اور زمین سے وابستہ ہوتی ہیں لیکن مذہبی پیشوا بہرحال اس کے خلاف بولتے رہے۔ ملاؤں کا موسیقی کا تصور صرف لڑکیوں کے دف بجانے تک ہی محدود رہا۔ یہاں پینٹنگز، فوٹوگرافی، مجسمہ سازی سیمت فنون لطیفہ کی تمام شاخیں مرجھائی ہوئی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فنکاروں کی حالت زار پر ترس آتا ہے کہ بیچارے کیسے نامساعد حالات میں بھی فن زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ محض مہذب کہلانے کی خاطر اس ملک کی منافق اشرافیہ نے ذہنی عیاشی کے لیے مختصر سے کچھ دریچے کھول رکھے ہیں، اس ملک میں شاہراؤں اور باغوں میں آرٹ کے نمونے نہیں بلکہ میزائل، توپیں، جنگی جہاز، ٹینک موجود ہیں۔ اس ملک کی بیوروکریسی نے پوری کوشش کی ہے کہ عوام کی جمالیاتی حِسوں کو تباہ کرکے انہیں وحشی ہجوم میں بدل دیا جائے۔ ہمیں اس پر سوچنا ہوگا کہ ہمارے ثقافتی بانجھ پن اور بدذوقی میں عقیدے کا کیا تعلق رہا ہے۔

خیر، لکھتے لکھتے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ دوستو، آپ سب خوش رہو۔ کہیں کسی محفل یا ایونٹ پر ملاقاتیں ہوتیں رہیں گی۔ زندگی مختصر ہے اور میں نے اس کو خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ پہلی ترجیح فیملی ہے جن کو پالنا اور وقت دینا میری ذمہ داری ہے۔ دوسری ترجیح اپنے کام یا جاب ہے جو رزق کمانے کا ذریعہ ہیں۔ تیسری ترجیح اپنی ذات ہے کہ تمام ذمہ داریاں نبھا کر خود کے واسطے، اپنے سفری زندگی کے واسطے وقت نکالوں۔

چوتھی ترجیح وہ ارد گرد بستے انسان ہیں جن کو سچ میں میری ضرورت ہے اور میرے سبب ان کی زندگیوں میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ وہ چاہے مالی مدد سے ممکن ہو یا اخلاقی و سماجی۔ پھر ذاتی دوست، عزیز و اقارب آتے ہیں، خاندان آتا ہے۔ ان سب کے بعد بھی وقت گر مل جائے تو انسان اسے یوں اس قسم کی میل ملاقاتوں میں گنوانا نہیں چاہے گا۔

ہاں، اس وال پر میں جو سوچتا ہوں، دیکھتا ہوں، مشاہدہ کرتا ہوں وہ سب تحریری و تصویری شکل میں پیش کر دیتا ہوں۔ اچھا لگے تو خوش رہا کریں، نہ اچھا لگے تو کوئی بات نہیں۔ دنیا میں آٹھ ارب انسان ہیں۔ کسی اور من پسند کی جانب رجوع کر لیں۔ آپ کا میرا تعلق اسی وال کے توسط سے باہمی احترام کا تعلق ہے۔ اس کو یہاں تک ہی رکھنا بہتر ہے۔ بی ہیپی آلویز۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed