Bachpan Ka Aik Yadgar Qissa
بچپن کا ایک یادگار قصہ
یہ قصہ مجھے کبھی یاد نہ آتا اگر یہ مجھے خواب میں نہ آتا۔ میرے ذہن سے بالکل محو ہو چکا تھا لیکن شاید کہیں لاشعور کی لائبریری میں رجسٹر تھا۔ گذشتہ رات ایک خواب آئی اور یہ سارا واقعہ فلم کی صورت خواب میں چلنے لگا۔ نیند اس خواب کے درمیاں ٹوٹ گئی۔ پھر کئی گھنٹے گروٹ بدلتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ میری زندگی کا شاید ایک جرم تھا جو لڑکپن کی نادانی میں کر گیا تھا۔ کئی خیال گڈ مڈ ہو کر ذہن میں گھومتے رہے۔ یہ محبت کی ان کہی داستان ہے۔ اسے کسی انسان سے محبت نہیں تھی۔ اسے اپنے کرکٹ بیٹ سے محبت تھی۔
میرے آبائی گھر سیالکوٹ سے دو گلیاں چھوڑ کر قریب ہی ایک کرکٹ گراؤنڈ ہوا کرتی جس کی چاردیواری تھی۔ داخلے کے لیے ایک بڑا سا آہنی گیٹ لگا ہوا تھا۔ میں روز شام وہاں محلے کے دوستوں کے ساتھ ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے جاتا۔ ابا جی اس سے بہت بیزار تھے۔ اول تو ان کے خیال میں کرکٹ ایک خطرناک کھیل تھا جس میں نازک مقام پر گیند لگنے سے موت ہو سکتی ہے۔ دوم، کھیل کھیل میں مغرب ہو جایا کرتی اور دوستوں سے فارغ ہو کر گھر آنے تک اندھیرا چھا چکا ہوتا۔ ابا کا حکم تھا کہ ہر صورت مغرب سے پہلے گھر میں ہونا چاہئیے۔ کرکٹ کے شوق کے سبب ابا سے کئی بار مار کھائی مگر شوق کا کیا ہو سکتا۔ پھر گراؤنڈ کو نکل جاتا۔
میں لڑاکا نہیں تھا۔ لڑائی جھگڑے والا مزاج نہیں تھا۔ لیکن جب کبھی کوئی اُلجھا یا خود لڑنے لگا تو پھر میں بھی بھرپور جواب دیتا تھا۔ لڑکپن میں غصہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایسے ہی ایک دن میرا محلے دار لڑکا جس کے ساتھ روزانہ کرکٹ کھیلتا تھا وہ نجانے کس بات پر اُلجھ پڑا اور پھر مجھے مارنے لگا۔ میں نے بھی پھر اس کو اچھی خاصی کُٹ لگا دی۔ وہ زخمی ہو کر گھر چلا گیا۔ باقی لڑکے پھر کرکٹ کھیلنے لگے۔ اس لڑکے کا ایک بڑا بھائی تھا جو عمر میں دس بارہ سال بڑا تھا۔ اس کا نام زمان تھا۔ اسے سب زمان بھائی پکارتے تھے۔ زمان بھائی کرکٹر تھے۔ سیالکوٹ کی جانب سے قائداعظم ٹرافی کھیلتے تھے۔ وکٹ کیپر بیٹسمین تھے۔ اس زمانے میں قائداعظم ٹرافی کھیلنا بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی۔ یہ ڈسٹرکٹ لیول کی ٹیم تھی جس کو پاکستان کرکٹ بورڈ مانیٹر کیا کرتا اور اسی ٹرافی کے میچز کے دوران پی سی بی قومی ٹیم کے لیے سلیکشن کیا کرتا تھا۔
زمان بھائی بھی ہر شام اپنا بیٹ لے آتے اور ساتھ ہارڈ بال۔ وہ تین لڑکوں کو دائرے میں کھڑا کرتے۔ ایک لڑکے کو کہتے ہوا میں بال اچھال کر ان کی جانب پھینک۔ اور پھر بیٹ سے گیند کو ہِٹ کرکے باقی دو لڑکوں کی جانب کیچ کے لیے شاٹ مارتے۔ یہ سلسلہ ان کا ہم سے الگ ذرا فاصلے پر چلتا رہتا۔ بیٹ کے بارے مشہور تھا کہ وہ بہت قیمتی بیٹ ہے جو نیشنل لیول کے کھلاڑیوں کے پاس ہوتا ہے۔ اس بیٹ کو زمان بھائی کسی کو چھونے بھی نہ دیتے تھے۔ اس کی تعریفوں کے پُل خود بھی باندھتے رہتے کہ اس کی سٹروک ایسی شاندار کے کہ ذرا سے ٹچ سے گیند گولی کی رفتار سے نکلتا ہے۔ اور وہ یقیناً مہنگا اور بہترین بیٹ تھا۔ زمان بھائی نے پائی پائی جوڑ کر خریدا تھا۔ وہ خود مڈل پاس تھے اس سے آگے نہیں پڑھ سکے تھے اور اس وقت ان کی زندگی کا مشن قومی ٹیم میں کھیلنا تھا۔
میں باقی لڑکوں کے ساتھ کھیل میں مشغول ہوگیا۔ اچانک زمان بھائی آئے۔ انہوں نے بیٹ کور میں لپیٹ رکھا تھا۔ وہ زمین پر گھاس پر رکھا اور سیدھا میرے پاس آئے۔ مجھے غصے سے پکڑا اور میرا کان مروڑ کر کہنے لگے " اب مارے گا فرحان کو؟ بدمعاش ہے تو بڑا غصہ ہے تیرے میں پ چ" نجانے کیا کیا غصے میں بولتے گئے اور میں کان مروڑے جانے کے سبب سخت تکلیف میں چیخنے لگا اور پھر رونے لگا۔ ان کو اپنے چھوٹے بھائی کی حالت دیکھ کر غصہ آیا تھا اور انہوں نے میرے کان پر گالیاں دیتے ہوئے نکال دیا۔ کوئی لڑکا آگے بڑھ کر چھڑانے نہیں آیا۔ جب میں رونے لگا اور معافی مانگنے لگا تب زمان بھائی نے کان چھوڑا۔
شدید تکلیف سے آزاد تو ہوا مگر کان میں پھر بھی مسلسل شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ زمان بھائی کو وہیں زمین میں گاڑ دیتا۔ میں روتا ہوا گھاس پر بیٹھ گیا باقی لڑکے مجھے روتا دیکھ تسلی دینے آئے اور مجھے چپ کروا کر پھر کرکٹ کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔ زمان بھائی اس دن ان کے ساتھ ٹیپ بال کھیلنے لگے۔ پچ پر بیٹنگ کرنے لگے۔ میرے اندر لاوا اُبل رہا تھا۔ کان درد کی وجہ سے سردرد لگ گیا تھا جو پیچھے گردن تک پھیل گیا تھا۔ مجھے اپنے قریب ہی کچھ فاصلے پر زمان بھائی کا بیٹ پڑا نظر آیا۔ اور تو کچھ نہ سُوجھا میں نے چپکے سے وہ بیٹ اٹھایا اور سب کی آنکھوں سے بچ کر بیٹ لیے گراؤنڈ سے نکل گیا۔
گھر آتے ہی میں نے چھت پر جا کر بیٹ کے ٹکرے ٹکرے کر دئیے۔ چھت پر ایک کونے پر فالتو سامان پڑا ہوتا تھا اس میں ایک زنگ لگی ٹوٹی دستی والی کلہاڑی اور ایک پھاوا ہوتا تھا۔ میں نے پھاوا مار مار کے بیٹ کے ٹکرے کر دئیے اور کلہاڑی سے اس کی چھوٹے چھوٹے پیس کر دئیے۔ غصے میں اس وقت پاگل ہو چکا تھا۔ کان درد رہ رہ کر اُٹھ رہا تھا۔ پھر بیٹ کے ٹکرے اسی کے کور میں ڈالے۔ رات کو چپکے سے باہر نکلا۔ زمان بھائی کی گلی خالی تھی۔ ان کے دروازے کے باہر وہ ٹکرے شدہ بیٹ رکھا۔ گھر کی بیل بجائی اور بھاگ گیا۔
اگلے دو روز میں ڈر کے مارے گراؤنڈ میں نہیں گیا۔ میں ڈرتا رہا کہ زمان کو معلوم ہو جائے گا۔ وہ گھر آ جائے گا یا مجھے دیکھ کر پکڑ لے گا۔ دل میں چور تھا۔ دو روز جب گزر گئے اور سکون رہا تو میں حالات معلوم کرنے باہر نکلا۔ یہ بات سارے محلے میں پھیل چکی تھی کہ کسی نے زمان بھائی کا بیٹ توڑ دیا ہے۔ مجھے تسلی ہوگئی کہ مجھ پر کسی کو شک نہیں ہوا۔ میں گراؤنڈ میں گیا۔ زمان بھائی کے اطراف لڑکے دائرہ بنائے بیٹھے تھے۔ زمان بھائی کی حالت بہت افسردہ تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ اپنے بیٹ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ دو دن بعد بھی ایسے ملے جیسے پھوڑی پر مرنے والے کا وارث بیٹھا ہو۔ میں نے بھی جا کر افسوس کیا۔ زمان بھائی نے مجھے کچھ نہ کہا پھر اچانک بولے " چھوٹے شاہ تینوں میں زیادہ مار دتا سی، غصے وچ کر گیا ساں، توں فرحان نال دوستی کر لے آپس وچ پیار نال رہیا کرو، لڑیا نہ کرو۔ "۔ ان کا لہجہ معذرتی تھا۔ میرا بھی غصہ اتر چکا تھا۔ اس وقت مجھے اپنی حرکت پر بہت دُکھ ہوا اور زمان بھائی پر بہت ترس آیا۔
مجھے یاد ہے میں گھر واپسی کی راہ میں بھیگی آنکھوں سے چلتا آیا تھا۔ مجھے تب بھی یہ احساس نہیں تھا کہ زمان بھائی کی ساری زندگی کی کمائی وہ بیٹ تھا اور اسی سے وہ اپنا مستقبل جوڑ چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد زمان بھائی ذہنی طور پر ڈسٹرب ہو چکے تھے۔ وہ قائد اعظم ٹرافی کے مسلسل پانچ میچوں میں بری طرح ناکام رہے اور بلآخر ٹیم سے ڈراپ کر دئیے گئے۔ اس سارے عرصے میں وہ افسردہ نظر آتے رہے۔ بار بار کہتے کہ میرا بیٹ ہوتا تو میں شاید اچھا کھیل جاتا۔
وقت گزرتا رہا۔ کرکٹ سے ان کی امیدیں ٹوٹ چکیں تھیں۔ پڑھے لکھے وہ نہیں تھے۔ گھر والوں کا دباؤ تھا کہ کرکٹ چھوڑو اب کوئی کام کرو۔ کماؤ۔ بلآخر وہ ایک سرجیکل کا سامان بنانے والی فیکٹری میں مزدوری کرنے لگے۔ ہماری کرکٹ جاری رہی۔ میں خود ڈسٹرکٹ سیالکوٹ سے دو میچز کھیلا اور دونوں میں ناکام رہا اگر کامیاب رہتا تو قائداعظم ٹرافی کھیل جاتا۔ یہ میچز قائد اعظم ٹرافی میں ٹیم کی سلیکشن کے لیے تھے۔ اوپننگ بیٹسمین ہوا کرتا تھا۔ پہلے میچ میں چار رنز اور دوسرے میں سات رنز بنا سکا۔ پاکستان انڈر نائنٹین کے کپتان شاہد یوسف اور قومی ٹیم میں سلیکٹ ہونے والے اور بعد ازاں کپتان بننے والے شعیب ملک ساتھ کھیلے ہوئے ہیں۔ کاکا طوفان نامی ایک فاسٹ باؤلر ہوا کرتا تھا۔ اس کی بال ٹپے کے بعد نظر نہیں آتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں بلکہ سیالکوٹ کا ہر پلئیر سمجھتا تھا کہ کاکا طوفان نیشنل ٹیم میں جائے گا۔ اس کا لقب" طوفان" اس کی فاسٹ باؤلنگ کے سبب پڑا تھا۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ کاکا طوفان شعیب اختر کی ٹکر کا باؤلر ہو سکتا تھا۔ وہ ٹیلنٹ ہم نے ضائع کر دیا۔
زمان بھائی کی شادی ہوگئی۔ کرکٹ ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکی تھی۔ اب وہ گراؤنڈ میں آتے تو اپنا ننھا سا کاکا اُٹھائے ہوتے۔ جھولی میں اسے بٹھا کر ہم سب کو کرکٹ کھیلتا دیکھتے رہتے۔ ٹِپس دیتے۔ کبھی کبھی برائے شغل بیٹ پکڑ کر دو چار بالز کھیلتے پھر اپنے بچے کے ساتھ جا بیٹھتے۔ اپنے بیٹے سے ان کو شدید محبت تھی۔ بار بار اسے بسکٹ، ٹافی وغیرہ کھلاتے رہتے۔ وہ بچہ ہمیں بھی پیارا تھا۔ گراؤنڈ میں اک وہی ننھا بچہ ہوتا تھا۔ پھر ایک واقعہ ہوا۔ زمان بھائی کی میرے سب سے گہرے دوست کے بڑے بھائی سے تُو تُو میں میں ہوگئی۔ اب مجھے یہ نہیں یاد کہ اس جھگڑے کا سبب کیا تھا لیکن کافی جھگڑا ہوگیا۔
مجھے میرے دوست نے دوستی کی قسم دے کر مجبور کیا کہ زمان سے بدلہ لینا ہے۔ اس کا پلان یہ تھا کہ میں، وہ اور دو لڑکے اور جو ہم سب دوست تھے زمان کو پکڑ کر اچھے سے پھینٹا لگاتے ہیں۔ ہم بھی کافی بڑے ہو چکے تھے اور اب زمان کے برابر کے تھے۔ میں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ البتہ دوست کے رونے دھونے اور جذباتی پن سے تنگ ہو کر میں نے اسے بیٹ والی بات بتا دی۔ وہ سن کر بولا " چلو زمان کو سبق سکھانے کو اسے پی سی او سے کال ملا کر دھمکی دیتے ہیں۔ "۔ اس زمانے میں پی ٹی سی ایل لگ چکے تھے۔ زمان کے گھر کا نمبر ڈائل کیا جو ہمیں معلوم تھا۔ ریسیور پر رومال رکھا اور آواز بدل کر زمان کو کہا " تم پنگے لیتے ہو آئندہ کسی سے پنگا لیا تو تمہارے بیٹے کی ٹانگ تمہارے بیٹ کی طرح توڑ دیں گے۔ " بس ایک جملہ مختصر سی دھمکی اور ڈر کے مارے فون رکھ دیا۔
ظاہر ہے یہ بس دھمکی تھی۔ ایسا کون کر سکتا تھا۔ مقصد بس اسے ڈرانا تھا اور اس کو دھمکا کے بدلے کا لطف لینا تھا۔ اس کے بعد زمان بھائی غائب رہنے لگے۔ گراؤنڈ میں آتے مگر روز نہیں۔ ناغے بڑھنے لگے۔ ہمیں ان کے بچے سے محبت تھی اس کا آنا بھی کم ہونے لگا۔ بس ایسے ہی زندگی مصروف ہوتی گئی۔ میں نے کرکٹ چھوڑ دی۔ گھر میں بہت مسائل پیدا ہو چکے تھے۔ ابا کی طبعیت خراب تھی۔ ایف ایس سی کے ساتھ کمانے کو پارٹ ٹائم نوکری کرنا پڑ گئی۔ الغرض کرکٹ اور گراؤنڈ سے تعلق تمام ہوا۔
آج سے آٹھ سال قبل میں نے اپنا آبائی شہر سیالکوٹ مستقل بنیاد پر چھوڑ دیا۔ لاہور منتقل ہوگیا۔ کبھی کبھار چکر لگتا اور صرف اس لیے جاتا کہ پرانے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا کر کچھ وقت اچھا گزار لوں۔ دوست مل جاتے۔ ایک شام بِتا کر واپس لاہور آ جاتا۔ میری زندگی میں ایک بڑی الجھن زمان بھائی والے قصے کو لے کر رہی۔ زمان بھائی بھی ایک دن مل گئے۔ ہم دوست گلی کے باہر ایک تھڑے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ سامنے سے آتے دکھائی دئیے۔ اچھے سے ملے۔ میں نے سوچا آج ان کو بتا دوں۔ ڈیڑھ بیت چکی۔ پندرہ سولہ سال گزر چکے۔ میں ان کو سائیڈ پر لے گیا۔ ایک سگریٹ نکالا۔ ان کو دیا۔ انہوں نے خوش ہو کر لیا۔ ہم دونوں نے سگریٹ سلگایا۔ میں نے ان کو بتا دیا کہ زمان بھائی بیٹ میں نے توڑا تھا۔ مجھے غصہ تھا اور مجھے تب یہی سوجھا۔ آپ کو مار تو نہیں سکتا تھا۔ بس بچپن کی نادانی تھی۔
زمان بھائی نے پہلے مجھے گھور کے دیکھا۔ پھر بولے " سچی؟ تم نے کیا تھا؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ "۔ میں نے پھر سارا قصہ تفصیل سے بتایا کہ ہاں اور یوں یوں کیا تھا۔ وہ حیرت سے سنتے رہے۔ پھر یکدم ان کو خیال آیا۔ ان کا لہجہ بدلا اور بولے " میرے بیٹے کو دھمکی والی کال بھی تم نے کی تھی؟"۔ مجھے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔ سچ پوچھیں تو مجھے وہ کال والی بات بھی یاد نہیں تھی۔ میرے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا" نہیں نہیں۔ کال کونسی؟ کال تو نہیں کی بس بیٹ توڑا تھا۔ "۔ وہ سنجیدہ ہوئے پھر ہنس دئیے اور جاتے جاتے بولے" کیا دور ہوتا تھا شاہ جی۔ کیا زمانہ یاد کروا دیا تم نے۔ مگر مجھے یہ ذرا سا بھی شک نہیں تھا کہ تم نے وہ حرکت کی۔ چلو جو ہوگیا سو ہوگیا۔ اس عمر میں سب ہی بے عقلے ہوتے ہیں۔ "
وہ چلے گئے تو میں نے بھی دوستوں سے رخصت لی اور واپس لاہور کو چلنا چاہا۔ اچانک گاڑی کے پاس پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ جب سب بتا دیا ہے تو اسے کال والی بات بھی بتاتا جاؤں۔ کیوں چھپا رہا ہوں۔ وہیں سے واپس ہوا۔ پیدل چلتا ان کے گھر پہنچا۔ بیل بجائی۔ زمان بھائی کو بلایا۔ وہ مجھے دیکھ کر پھر حیران ہو گئے اور خود ہی بولے " ہن کی دسن آیا ایں شاہ؟"۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے پنجابی میں کہہ دیا" پائین، او کال وی میں ہی کیتی سی۔ بس ایہو دسنا سی۔ سوچیا جان توں پہلاں دس ای دیاں۔ "۔ زمان بھائی نے پھر میرا منہ غور سے دیکھا۔ بولے " شاہ توں ایڈا بغیرت لگدا تے نئیں ساں"۔ پھر انہوں نے سگریٹ مانگا۔ میں نے ڈبی دیتے کہا" ساری رکھ لو۔ رات نوں پرانی یاد آوے گی تے پی لینا۔ "۔ زمان بھائی خود تو نہ پڑھ سکے البتہ انہوں نے اپنا بیٹا NUST داخل کروایا تھا وہ تب فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں انجئینرنگ کر رہا تھا۔ اب تک کر چکا ہوگا۔ میرا سیالکوٹ سے ناطہ صرف قبرستان کی حد تک رہ گیا ہے۔ والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر آ جاتا ہوں۔ محلے کے یار دوست کوئی کہیں نکل گیا تو کوئی کہیں مصروف ہوگیا۔ میں بھی تو وقت کے ساتھ بدلتا چلا گیا۔ زندگی مصروف ہو کر بلٹ ٹرین کی رفتار سے آگے بڑھ گئی ہے۔
رات خواب میں وہ گراؤنڈ، کرکٹ، زمان بھائی اور وہ گلیاں آتیں رہیں۔ نیند اس خواب کے دوران ٹوٹ گئی۔ ہر انسان کے زندگی میں چھوٹے بڑے پچھتاوے ہوتے ہیں۔ یہ میری زندگی کا ایک ریگریٹ تھا۔ مگر جب یہ سب ہو رہا تھا تب نہ شعور تھا نہ زندگی نے دھکے لگانے شروع کئیے تھے۔ اب جب اچانک چھوٹے چھوٹے پچھتاوے یاد آتے ہیں تو دل کسمسا سا جاتا ہے۔