Baat Karne Ki Space Mafqood
بات کرنے کی سپیس مفقود
ریاست یا ریاستی اداروں کو کیا کہنا یہاں تو عام پبلک نے بھی بات کرنے، بات کہنے اور بات رکھنے کی سپیس فرد سے چھین لی ہے۔ تاریخ میں بہت سی تحریکیں ایسی ہیں جو اچھے مقصد کے لیے شروع ہوئیں اور پھر جب ہمارے ہاں پہنچیں ان کا وہی حال ہوا جو برصغیر میں دین کے ساتھ ہُوا۔ کلچر حاوی آیا یا تحاریک پوش گھرانوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئیں۔ اس ملک میں فیمن ازم سے مراد مرد کُش خواتین و مرد حضرات ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اینٹی فیمن ازم کا شکار ہو کر عورت کے سر پر گھڑے توڑنے کی مشق و مشقت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
اعتدال چونکہ عنقا ہے قوم اعتدال پسند بنی ہی نہیں اس واسطے آپ یہاں کوئی بات بھی رکھیں اس کو دلیل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جائے گا۔ اس کو ایک گروپ پکڑے گا۔ آپ کے خلاف مہم بنائے گا اور اپنی فالوؤنگ کو اُکسائے گا۔ اس کے نیچے جتنے فارغ، زندگی میں ناکام، پروفیشنل گروتھ میں زیرو اور کی بورڈ وارئیرز ہوں گے وہ اپنی دانش کے نمونے بکھیرنے پہنچ جائیں گے۔ یہ افسوسناک رویہ ہے۔
ایسے معاشروں میں جہاں حسد، کھینچا تانی، دوسروں کو قدموں تلے کچل کر آگے بڑھنے کی روش ہمارے مزاج یا جنیاتی کوڈ میں شامل ہے وہاں بات کہنا، بات پہنچانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ہر صاحبِ دستار اپنی دستار بچانا چاہتا ہے۔ طبقاتی گروپنگ اس قدر شدید ہے کہ گروپ نہیں رہے غول بن چکے ہیں اور غول کا کام تو پھر۔۔
سوشل میڈیا پر موجود خواتین کے حقوق کے علمبردار ہماری خواتین و مرد حضرات وومن ایمپاورمنٹ کے نام پر تو کبھی وومن کارڈ کے ذریعہ سماجی ایشوز پر بولنے کی سپیس چھین چکے ہیں۔ ہر ایکش کا ری ایکشن ہے اس لیے دوسری جانب ایسا طبقہ وجود میں آیا ہے جس کے نزدیک ہر برائی کے جڑ عورت ہے اور اس سارے منظر نامے میں سوچنے سمجھنے یا غور و فکر کرنے والا شخص اتنا مجبور کیا جا چکا ہے کہ وہ اپنی بات کہنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے عزت بچاؤں یا بات پہنچاؤں۔
یہ کربناک صورتحال محض ان طبقات تک ہی محدود نہیں آپ اس سماج کے کسی بھی مسئلے پر بات کرکے دیکھ لیں۔ کوئی نہ کوئی گروپ لسانی، مذہبی، نسلی، قبائلی، خاندانی، پیشہ وارانہ، جنسی، سیاسی یا علاقائی بنیاد پر اُٹھے گا اور آپ پر حملہ آور ہو جائے گا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ طبقات میں بٹی اس عوام کو یک زبان ہو کر ریاستی اداروں سے گلہ ہے کہ وہ آزادی اظہار کی سپیس چھین رہے ہیں۔ کرپشن ریڑھی بان سے شروع ہو جاتی ہے مگر گالی صاحب اختیار کو پڑتی ہے۔ جھوٹ، دغا، فریب چھوٹے کاروبایوں سے شروع ہوتا ہے مگر کوسنے کو حکمران ملتے ہیں۔ معاملات میں ہیرپھیر، اہلخانہ سے بدسلوکی، چھینا جھپٹی، دوسرے کی مال و عزت پر نظر متوسط گھرانوں سے شروع ہوتی ہے مگر گھڑا مولوی و منبر کے سر پر ٹوٹتا ہے۔
عرصہ ہوا میں نے کسی سماجی ایشو پر مفصل لکھنا ترک کر دیا ہوا ہے۔ آپ کو کافی عرصے سے میری کوئی سماجی، سیاسی و معاشی ایشوز پر تحریر نہیں ملے گی۔ خون جلا کر، کڑھ کر، اور لکھ لکھ وال کالی کرکے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس معاشرے میں پیدا ہونا ہی کسی ناکردہ جرم کی سزا ہے۔ یہاں گونگا بھی عزت نہیں بچا پاتا کُجا ایک لکھنے بولنے والا شخص۔ جب سپیس ہی نہیں رہی تو کہنا کس کو ہے اور کیوں کہنا ہے۔ ریاستی اداروں سے گلہ تو بعد کی بات ہے۔ میں عمومی عوامی روئیے کی بات کر رہا ہوں۔ پہلے ان سے بچو پھر ریاستی اداروں سے بچو۔
شہرت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان سے اس کی سوچ، اس کے بے ساختہ پن اور اس کی آواز پر پہرے بٹھانے لگتی ہے۔ معاشرے میں ایک جانا مانا شخص ہزار گنا زیادہ خطرات میں ہوتا ہے بہ نسبت ایک غیر معروف شخص کے اور وہ خطرات کو فیس کر رہا ہوتا ہے اور پھر ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کچھ معلوم نہیں پڑتا کہ کونسا گروہ، طبقہ یا ریاستی یا غیر ریاستی عناصر آپ کی تاک میں ہیں۔ وہاں شہرت بہت ظالم شے ہے۔ یہ انسان کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔