Ajab Khan Afridi
عجب خان آفریدی
سفر کے خواب بنتے پشاور آیا۔ میں نے کچھ ضرورت کی اشیا جمع کیں اور کوہاٹ جانے والی سڑک کو ہو لیا۔ میرا ارادہ برآستہ درہ آدم خیل کوہاٹ اور وہاں سے ٹل سے ہوتے ہوئے، اپنی منزل کو پہنچنے کا تھا۔ آدم خیل کے آتے آتے شام پھیل رہی تھی۔ ڈھلتے سورج کی سنہری کرنیں درہ آدم خیل کے چوک میں استادہ عجب خان آفریدی کے مجسمے کو چمکا رہی تھیں۔
عجب خان آفریدی 1885ء میں درہ آدم خیل میں پیدا ہوئے۔ پشتون قبائل انگریز سرکار کے کاروانوں پر حملہ آور ہوتے اور ساز و سامان لوٹ کر لے جاتے۔ اس کی ایک وجہ پشتون قبائل کی برطانوی سامراج سے نفرت تھی۔ سرکار برطانیہ ان قبائل کو باغی سمجھتی تھی اور ان کی سرکوبی کے لیے چھاپہ مار دستے تیار کرتی، مگر یہ قبائل جنگجو جوانوں پر مشتمل ہوتے۔ جس کی وجہ سے برطانوی سپاہیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔
کوہاٹ گریژن کبھی بھی پشتونوں کو زیر نہیں کرسکی تھی۔ دن بہ دن بڑھتی شورش کی وجہ سے انگریز فوج نے اردگرد کے دیہاتوں کی ناکہ بندی کی اور گھر گھر تلاشی کا کام شروع کیا۔ پشتون روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے گورا سرکار قبائیلیوں کے گھروں میں داخل ہوئی اور خواتین کو گھر سے باہر نکال کر تلاشی کا کام شروع کیا۔ پشتون روایات میں خواتین کی چادر اور چاردیواری کی بہت اہمیت ہے۔
عجب خان آفریدی ان دنوں اپنے علاقے سے دُور تھے۔ جب واپسی پر انہیں اس واقع کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی والدہ سے عہد کیا کہ وہ اس بے عزتی کا بدلہ انگریز فوج سے ضرور لیں گے۔ عجب خان نے لشکر تیار کیا اور کوہاٹ گریژن پر حملہ آور ہوکر میجر ایلس جو تلاشی کے دوران اپنی پلٹون کو کمانڈ کر رہا تھا۔ اسی کی بیوی کو قتل کر دیا اور بیٹی مولی ایلس کو اغوا کرکے قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا۔
عجب خان نے مس مولی کو اپنی والدہ و بہن کے سپرد کیا تاکہ وہ اس کی اچھی دیکھ بھال کرسکیں۔ اس واقع اور اغوا کی سنسنی خیز خبریں برطانیہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر نے پولیٹکیل ایجنٹ کے ذریعے عجب خان آفریدی سے مس مولی کی واپسی کے لیے مذاکرات شروع کیے اور بالآخر 1923ء کی صبح مس مولی کو اس شرط پر واپس کردیا گیا کہ آئندہ سے انگریز فوج قبائلیوں کے گھروں پر حملہ آور نہیں ہو گی۔
اور ان کی خواتین سے بدسلوکی نہیں کرے گی۔ مس مولی کی واپسی کے بعد انگریز ڈاکٹر نے ان کا طبّی معائنہ کیا۔ مس مولی نے ڈپٹی کمشنر کو بیان ریکارڈ کروایا کہ اس کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہیں کی گئی، بلکہ وہ عجب خان آفریدی کی مہمان نوازی اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ بعد ازاں مس مولی کو اس کی مرضی کے خلاف برطانیہ بھیج دیا گیا۔ وقت گزرا مگر مس مولی عجب خان کو نہ بھول پائی۔
1984ء میں اس واقع کے 61 سال بعد مس مولی نے سرکاری پروٹوکول میں کوہاٹ کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران انہوں نے عجب خان آفریدی کی رہائش گاہ کا وزٹ کیا اور عجب خان کو یاد کرکے رو پڑیں۔ درہ آدم خیل کے مرکزی چوک میں نصب عجب خان آفریدی کا مجسمہ اب سائے میں آچکا تھا۔ سورج کروٹ لے کر پہاڑوں کے عقب میں جا چھپا تھا۔ درہ آدم خان کبھی ایشیا کی سب سے بڑی اسلحہ مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔
اس بازار میں ہلکے اسلحے سے لے کر بھاری اسلحہ باآسانی دستیاب ہوا کرتا۔ پاکستان پر دہشت گردی مسلط ہوئی تو پاک فوج نے درہ آدم خیل کو اسلحے سے پاک کیا۔ وہ مقامی لوگ، جو اس کاروبار سے نسلوں سے وابستہ تھے۔ ان کو دوسرے کاروبار میں منتقل کرنے کی خاطر ان کی ہر طرح سے مدد کی گئی۔ درہ آدم خیل کے پہاڑ کوئلے سے بھرے ہیں۔ اب قبائل کوئلے کی کانوں پر کام کرتے ہیں اور ان سے کوئلہ نکال کر اپنا اچھا گزر بسر کر رہے ہیں۔
مقامی لوگ کوئلے کی دریافت سے خوش ہیں۔ اس علاقے میں خوشحالی ہے۔ کوئلے سے حاصل شدہ آمدن میں سارا قبیلہ حصہ دار ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس کا ماہانہ حصہ ملتا ہے۔ چاہے وہ ایک دن کا پیدا شدہ بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ میرا سفر کوہاٹ کی طرف جاری رہا۔ چلتے چلتے کوہاٹ کا قلعہ ہینڈی سائیڈ نظر آیا۔ قلعے کی سمت جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تاریخی قلعہ پاک فوج کی 9 ڈیو آرمی کا ہیڈ کوارٹر ہونے کے سبب عام عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔
میری درخواست پر مجھے اس قلعے کی بیرونی دیوار تک جانے کی رسائی دے دی گئی۔ بیرونی دیوار سے کوہاٹ شہر کا منظر دیکھا تو دل کیا یہیں شام ہو جائے۔ فطری مناظر نے مجھے ہمیشہ سے بے چین رکھا ہے، خاص طور پر جب میں ان کا نظارہ کسی تاریخی مقام سے کر رہا ہوں۔ قلعہ ہینڈی سائیڈ کی بنیاد درانی قبیلے نے اٹھارویں صدی میں رکھی۔ قلعہ کی تعمیر اس وقت کچی ہوا کرتی تھی۔
1934ء میں برطانوی فوج نے باغیوں یعنی قبائل کو شکست دے کر اس قلعے پر قبضہ کرلیا اور اسے پکی بنیادوں پر دوبارہ استوار کیا۔ اس قلعہ پر قبضے کی جنگ میں برطانوی فوج کا میجر ہینڈی سائیڈ قبائیلیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اسی کی یاد میں اس قلعے کو یہ نام ملا۔ عجب خان آفریدی تا میجر ہینڈی سائیڈ تک کا سفر تمام ہو رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ تاریخ کے دو رخ ہوتے ہیں اور ان دونوں پہلوؤں کا اپنا اپنا ہیرو ہوتا ہے۔
تاریخ ایک بھول بھُلیا ہے۔ ایک جال ہے۔ ایک اونٹ ہے۔ جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں۔ سدھارتھ گوتم بدھ نے کہا تھا "اس پر ضرور یقین کرو جو کہے کہ میں سچ کی تلاش میں ہوں، مگر اس پر ہرگز یقین نہ کرو جو کہے کہ میں نے سچ کو پا لیا"۔