Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aise Zakhmon Ka Kya Ilaj Karoon

Aise Zakhmon Ka Kya Ilaj Karoon

ایسے زخموں کا کیا علاج کروں

دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک میں ہر شعبہ ہائے فکر یوں بدل گیا جیسے گرگٹ ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔ ڈارون کی تھیوری کہتی ہے چمپینزی لاکھوں سال میں ارتقاء کی منازل طے کرتا انسان بنا مگر وہ یہ نہیں بتاتی کہ کیا کسی ارتقائی عمل کی معراج پوری ہو جائے تو واپسی کا سفر بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے انسان اب ارتقائی عمل کی معراج سے واپس چمپینزی بننے کی جانب تیزی سے سفر کر رہا ہو۔ اپنے معاشرے کو دیکھ کر مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔ عالمی منظرنامے کو دیکھوں تو دنیا میں پھیلی عسکریت و جنگی جنونیت کو دیکھ کر بھی یقین ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے ارتقائی عمل کا ریورس پراسس بھی ہو۔ جو شے جتنی رفتار سے اوپر جاتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ رفتار سے واپس آتی ہے۔ اس امر پر شاید مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ڈارون تھیوری کو ہر سامی دین رد کرتا ہے۔ جس دین پر میرا ایمان ہے وہ انسان کو علم کی معراج عطا کرنے، انسان کو انسانیت کا درس دینے، انسانوں کے مابین فاصلے کم کرنے، جنس کی تفریق مٹانے، دشمنیاں ختم کرانے، ایک قالب ہو کر بسنے اور ایک دوسرے سے بہترین اخلاق کا درس دینے کو آیا تھا۔ جس کتاب پر میرا ایمان ہے وہ جگہ جگہ کہتی ہے "کیا تم کائنات پر غور نہیں کرتے؟"۔ جس پیغمبر کا کلمہ گو ہوں اس نے کہا تھا "میں عورتوں کی بابت تم کو خدا سے ڈراتا ہوں۔ ان کا خیال رکھنا"۔ پھر بھی اپنے قارئین کے واسطے اپنا عقیدہ سادہ الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں۔

"سب سے پہلے حمد اس رب کی جس کی قدرتوں کا کچھ شمار نہیں۔ جس نے لاکھوں کروڑوں کہکشائیں و دنیائیں بنائیں اور دس لاکھ مربع میل قطر کا سورج بنا کر اسے اس کائنات میں نقطے کی حیثیت بخشی۔

پھر درود اس نبی پر جس نے بادشاہوں کو فقیری اور فقیروں کو بادشاہت دے کر ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ اس نے عقلوں سے پتھر ہٹا کر اپنے پیٹ پر باندھ لیئے۔

پھر سلام روشنی کے ان میناروں پر جنہوں نے باطل کا ساتھ نہ دیا اور حق کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا کر نیزوں پر بلند کروا لیں۔

پھر رحمت ان عظیم لوگوں پر جنہوں نے فضا میں اوزون، مٹی میں تیل اور ایٹم میں الیکٹرون پروٹون دریافت کیئے۔

اور آخر میں شاباش ان بہادروں کو جنہوں نے ہزار رکاوٹوں کے باوجود ہر حال میں زندگی کا سفر جاری رکھا۔

میری وہی کتاب ہے جو لوح محفوظ سے صادق و امین قلب پر نازل ہوئی۔ جس کا لانے والا امین فرشتہ ہے۔ جس کو بھیجنے والا خالق مطلق ہے۔ جس کو سنانے والا رحمت للعالمین ہے۔

میرا وہی پیغمبر ہے جس نے دشمنیاں ختم کروا کے عرب و عجم کو ایک کر ڈالا۔ جس نے تلوار دفاع میں اٹھائی۔ جو فتح مکہ کے بعد فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل نہیں ہوا بلکہ سفید جھنڈا تھامے داخل ہوا۔ جس نے بدترین دشمن کو فی النار نہیں کیا بلکہ کھلی امان کا اعلان کیا۔

میرا وہی دین ہے جس نے فساد پھیلانے والوں پر کھُلی لعنت بھیجی۔ جو ظالموں کو عذاب کی وعید سناتا ہے۔ جس نے مظلوم کی آواز بلند کی"۔

مجھے لگتا ہے میرا عقیدہ اور میری سوچ اس معاشرے میں متروک ہو چلی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سماج یکسر بدلتا چلا گیا ہے۔ اب اس قدر بدل چکا ہے میں یہاں اجنبی بن کر جی رہا ہوں۔ ہر شخص خدائی منصب پر براجمان ہوئے جج بنا ہوا ہے۔ ہر حاکم خود کو ابدی طاقت سمجھتا ہے۔ ہر شعبہ زندگی خواہ اس کا مذہب سے واسطہ ہو یا نہ ہو وہ گراوٹ کا شکار ہے اور ایسی گراوٹ کا جس کی کوئی مثال ماضی سے نہیں ملتی۔ طبقات در طبقات تقسیم ہے جو گہری ہو کر وسیع خلیج بن چکی ہے۔ مذہب، جنس اور سیاست کی بنیاد میں ٹیڑھی اینٹ رکھی گئی ہے اور اس پر جو عمارت بھی اُٹھی ہے اس کا کوئی زاویہ سیدھا نظر نہیں آتا۔ اب یا تو مجھے اسی خیال کا ہونا پڑے گا جس خیال کا سماج ہو چکا ہے۔

دین سیکھئیے ساحل عدیم سے۔ اخلاق سیکھئیے خلیل الرحمٰن قمر صاحب سے۔ موسیقی کا شغف رکھتا ہو انسان تو چاہت فتح علی ہے۔ حریت و غیرت سے بھرا کلام سننا ہو تو حسن چشتی اور اس کے پیر فضل چشتی کی سوچ "سکول وچ دھی گھلنا کم ہوندا دلیاں دا" اور "جس بیبی دے ہتھ وچ موبائل ٹچ اے، او رن کشتی اے اے گل سچ اے۔ " وغیرہ وغیرہ سے ہمنوا ہو جائیں۔ سیاست میوزیکل چئیر کا کھیل بنی ہے اور سیاستدان کھلاڑی۔ عدلیہ آئین کی ویسی ہی محافظ ہے جیسے ادارہ جمہوریت و سرحدوں کا محافظ بنا ہوا ہے۔ ٹی وی چینلز پر فیملی شوز ذو معنیٰ جملوں، گھٹیا جگتوں اور سستے سٹنٹس سے بھرے ہوئے ہیں۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا جعلی خبروں اور ان پر سپر جعلی تجزیوں کا میدانِ کارزار ہے۔ صحافت کا رنگ زرد ہے۔ کوئی صحافی غیر جانبدار نہیں سب کا اپنا اپنا قبلہ ہے۔

بازار جھوٹ، مکر و فریب سے سجے ہوئے ہیں۔ ریڑھی بان تا بیوروکریسی گاہک و سائل کے کپڑے اتارنے کو بیتاب ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں عوام میں سرایت کر چکی ہیں۔ صوبائیت و لسانیت، قوم ذات قبیلہ نے بطور پاکستانی قومیت کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ عالمی منظرنامے پر پاکستان نامی ریاست عضو معطل ہے اور پاسپورٹ ردی کا ٹکرا ہے۔ اہلِ مذہب و جبہ و دستار و منبر والوں نے قدم قدم نفرت و فتوؤں کی مائنز بچھا رکھی ہیں۔ ڈائیلاگ یا مکالمہ کی بجائے گالی ہے۔ گھروں میں بے چینی، خونی رشتوں میں خونی جھگڑے اور کاغذی رشتوں میں طلاقیں ہیں۔ مذہبی مدارس و کالجز و یونیورسٹیز سے آتی خبریں دلخراش ہیں۔

اس معاشرے کے بڑے مسائل مذہبی انتہا پسندی، امن و امان کی حالت، بے ہنگم بڑھتی ناقابل کنٹرول آبادی، وسائل کی کمی، قرضوں کا حجم و معیشت کی تباہی، غربت، جہالت اور آئینی اداروں کی آئین سے روشکنی ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ریاستی سطح پر ان مسائل کا ادراک ہے بھی تو ان کے حل واسطے کوئی لائحہ عمل نہیں اور سماجی سطح پر سب مسائل پر گہری چُپ ہے۔ اکا دکا کوئی بولتا بھی ہے تو منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ غائب نہ ہو تو کوئی جنت کا متلاشی مجاہد اس کی جان کے در پے ہو جاتا ہے۔ ایک فلم دیکھ رہا تھا اس کا ایک ڈائیلاگ لکھتے لکھتے یاد آ گیا ہے "جو بھگت سوال نہ اُٹھائے وہ بھگت ادھورا اور جو دھرم جواب نہ دے پائے وہ دھرم ادھورا"۔

ہاں یہی سماج تھا جہاں کبھی ننگی آمرانہ فضا میں بھی کوئی بات کہتے ہوئے دائیں بائیں نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ حساس ترین مذہبی و غیر مذہبی معاملات پر دوستوں سے الجھتے ہوئے بھی کوئی اندر سے لگامیں نہیں کھینچتا تھا۔ رک جا، ابے رک جا، پاگل ہوگیا ہے کیا، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ہوا تیز چل رہی ہے مگر سانس رک رہی ہے۔ بظاہر کوئی کسی پر نگراں نہیں مگر ہر کوئی اپنا ہی ہمہ وقت نگراں ہے۔ سب آزاد گھوم رہے ہیں مگر اپنی سوچ اور روح اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ صرف اس لالچ میں کہ اس جیسی کیسی زندگی کے چند دن اور میسر آ جائیں کہ جس زندگی سے ہر کوئی تنگ ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر میں بہت کچھ دیکھ، سُن اور پرکھ رہا ہوتا ہوں۔ بہت کچھ اگنور کرکے لائٹ موڈ میں رہنے اور جینے کا فن بھی سیکھ چکا ہوں۔ پھر بھی یہ معاشرہ ایسا ظالم ہے کہ کبھی کبھی سانس بھی چھیننے لگتا ہے۔ تب میرا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور میں چیخنے لگتا ہوں۔ صبر کا پیمانہ چھلکتا ہے تو مزاج اور تحریر میں بھی تلخی آ جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میں دعا گو رہتا ہوں کہ میں نہیں تو میری اگلی نسل اس عذاب سے نکل پائے۔

اب تو ایک ہی خواہش دن بہ دن اندر ہی اندر پلتی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ میں بھی امریکا، برطانیہ یا یورپ جا کر ٹک جاؤں اور وہیں سے کہا کروں"اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بہتر کوئی ملک نہیں۔ اللہ میرا رب، پاکستان میرا ایمان، پاک فوج کو سلام۔ "

ایسے زخموں کا کیا علاج کروں
جن کو مرہم سے آگ لگ جائے

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar