Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aik Daire Ka Safar Hai

Aik Daire Ka Safar Hai

ایک دائرے کا سفر ہے

بہاولنگر میں پولیس کے ساتھ جو سلوک ہوا چیف منسٹر صاحبہ خاموش، رؤف حسن کے ساتھ جو ہوا اس پر خاموش، سرگودھا میں جو بنام مذہب ہو رہا ہے اس پر خاموش، پنجاب بھر میں جہاں جہاں ناخوشگوار واقعات سامنے آئے اس پر خاموشی ہے۔ زور ہے تو بس کبھی پولیس کی وردی پہننے پر کبھی ایلیٹ فورس کی وردی اوڑھنے پر اور کبھی والد محترم کی تصویر والے آٹے کے تھیلوں کو سجا کر پریس کانفرنس کرنے پر۔ مریم بیبی کی تاحال جو کارکردگی سامنے آئی ہے اس سے ابھی تک تو میں یہی نتیجہ اخذ کر پایا ہوں کہ سنجیدگی سے دوری ہے، ڈلیوری سے بیزاری ہے اور سیلف کوریج کی انتہا ہے۔ شاپنگ کرتے بھی کوریج ہے، چار پانچ فینز کے ملنے کی بھی کوریج ہے۔ اور یونہی جب مہلت تمام ہو جانی ہے پھر عمر بھر کا رونا ہے " ہمیں چلنے نہیں دیا گیا"۔۔

ہر حکمران تخت سے اُتر کر ایک ہی رونا روتا ہے اور ایک جانب ہی انگلی اٹھانے لگتا ہے۔ ان سب کو گڈ گورننس کو فروغ دینے سے اب تک کس نے روکا؟ سی آئی اے نے یا موساد نے؟ مس مینجمنٹ اور مہنگائی کی مار کون مار رہا ہے؟ Raw یا MI5؟ کرپشن اور ٹیکس چوری پر کون اکسا رہا ہے؟ رشین یا ہنگیرین سیکرٹ ایجنٹس؟ انتہا پسندی کی دیمک پر سپرے کرنے سے کون روک رہا ہے؟ چلی، روانڈا یا برونائی؟ ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل کو بے حال کس نے کیا؟ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں نے یا عالمی عدالتِ انصاف نے؟ چالیس فیصد پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کس نے بنگلہ دیش میں منتقل کی؟ تعلیم اور صحت پر رقم لگانے کے خلاف کون ہے؟

ٹھیک ہے مانتا ہوں اور لکھتا ہوں کہ جرنیلوں اور جنرلز ہیڈ کوارٹر کی مداخلت، منصوبے، چالیں، بزنس مینجمنٹ اپنی جگہ مگر جتنا اختیار اور جتنے بھی وسائل آپ کے پاس ہیں ان کے اندر کس نے گڈ گورننس دی ہے؟ اگر آپ بالکل ہی بے بس و بے اختیار ہیں تو پھر آپ ہیں کیوں؟ پھر آپ تو اگلوں کے شریک جرم ہیں۔ کولیبریٹر ہیں۔ اور اگر تھوڑا بہت اختیار ہے تو وہ کہاں خرچ ہوتا ہے؟ سیلف پروموشن پر؟ مخالف کا بازو مروڑنے پر؟ پارٹی کے اشتہاروں پر؟ آٹے کے تھیلوں، لنگر خانوں، ہائی فائی میٹنگز اور فائیو سٹار سیمینارز پر؟ وی آئی پیز عمروں اور ہمنوا صحافیوں کی ایڈجسٹمنٹ پر؟ فلاں کو نکال دو، فلاں کو رکھ لو، اس کی ٹرانسفر اُس کی ترقی، اچانک وزٹ، چار معطل، چھ برخاست۔ آپ سے پہلے یہاں جو رجیم تھی رہی وہ بھی نہیں اور ٹکنے والے آپ بھی نہیں تو کیا یہی دانش ہے کہ جتنے دن یا ماہ چل چلاؤ ہے بس وقت گزارو۔

ستر فیصد بیوروکریسی دوہری شہریت رکھتی ہے۔ اگر نہیں رکھتے تو بال بچوں کو دلوا چکے ہیں۔ کیا جج اور کیا جرنیل اور کیا سیاستدان سب کے اثاثے، بچے، کاروبار باہر۔ بچوں کی تعلیم باہر۔ نوکری کے بعد خود بھی باہر اور پینشن اندر۔ جب سارا نظام ہی امپورٹڈ ہو اور اس کو چلانے والے دھرتی سے ذرا سی بھی وابستگی نہ رکھتے ہوں تو ایسے ملک کا کونسا مستقبل اور پاکستانیوں کی کیسی خوشحالی۔ جو بولے اسے اٹھاؤ۔ جو مخالف ہو اسے فکس کرو۔ جو کاروبار میں ترقی کر جائے اس سے بھتہ لو۔

چھہتر سالوں سے کوئی کباڑی اس کو نیا پاکستان، کوئی چھابڑی والا انقلابی پاکستان، کوئی کنگلا اسلامی پاکستان اور کوئی دو نمبریا روشن پاکستان کوئی باوردی صدر سب سے پہلے پاکستان کہہ کر بیچتا گیا ہے اور پیٹ پالتا رہا ہے۔

گذشتہ سال سات لاکھ ہونہار پاکستانی ہجرت کر چکے ہیں۔ ان میں ساٹھ ہزار انجینئیرز، نوے ہزار میڈیکل گریجوئٹس اور لگ بھگ اتنے ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس کے دیگر شعبے سے وابستہ افراد ہیں۔ برین ڈرین تین دہائیوں سے جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ ڈالر کے ریٹ جیسا چڑھاؤ آیا ہے۔ یہاں نظام کو عدالتیں تحفظ دیتی ہیں۔ عدالتوں کو ادارہ تحفظ دیتا ہے۔ ادارے کو سیاستدان کاندھا دیتے ہیں اور سیاستدانوں کو یہی نظام تحفظ دیتا ہے۔ ایک دائرے کا سفر ہے۔ سارا نظام ویل آئیلڈ مشین ہے۔

یا تو ریاست کو بائے بُک چلاؤ یعنی جو ہے جیسا ہے آئین ہے۔ اس آئین کے تحت چلا لو یا پھر پارلیمان ججز چلائیں۔ اکانومی ادارہ چلائے۔ اور سیاستدانوں کو رومی سٹائل تھیٹر بنا کر دیا جائے جہاں گلیڈئیٹر سٹائل فائٹ منعقد ہوتی رہا کرے۔ کوئی ایک راہ تو چُن لو۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra