Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Imran Ali Shah
  4. Siasi Ashrafia, Bureaucracy, Bad Tareen Mehangai Aur Aam Aadmi

Siasi Ashrafia, Bureaucracy, Bad Tareen Mehangai Aur Aam Aadmi

سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی، بدترین مہنگائی اور عام آدمی

نشیب و فراز زندگی کی علامت ہوا کرتے ہیں، کیونکہ کسی بھی شے کا دوام ہونا ناممکن ہے، اس کائنات میں قائم و دائم صرف ذات پروردگار عالم ہے، جس حکم "کُن" سے پورا نظام ہستی وجود میں آیا ہے۔

ملک پاکستان کی آزادی کو 76 برس ہو چکے ہیں، روز اوّل سے ہی، یہ سرزمین مشکلات کا شکار رہی، اگر ان مشکلات اور چیلنجز کی وجوہات کا احاطہ کرنے بیٹھ جائیں تو ان پر سینکڑوں کتب تحریر کی جا سکتی ہیں۔

مگر پاکستان کو بطور ایک ریاست جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش رہا ہے وہ سیاسی عدم استحکام اور اہل قیادت کا فقدان ہے، اب تک کوئی ایک بھی سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہ کر پائی ہے، حکومت چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی رہی ہو، اس کے دور میں حزب اختلاف کا طرز عمل صرف اور صرف کھینچا تانی، الزامات کی سیاست اور ذاتی مفاد کا محور رہی ہے۔

دنیا میں قانون و آئین سازی کو بطورِ امانت ایک اہم ترین فریضہ سمجھ کر عوام کے بہترین مفاد میں سرانجام دیا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں آئین و قانون میں جب بھی ترامیم کی گئیں یا تو نظریہ ضرورت کارفرما رہا، پھر چند با اثر کو ریلیف دینے کے لیے کی گئی۔

پاکستان میں صاحبانِ اقتدار سیاستدانوں کے اثاثوں کی اگر غیر جانبداری اور شفاف انداز میں جانچ پڑتال کی جائے تو معلوم ہوگا کہ، ان کے اثاثے چند سالوں میں ہزار گنا بڑھے ہیں، مگر کیونکہ یہ سب کے سب مقدس گائے کی حیثیت رکھتے ہیں جب بھی ان پر کوئی کیس بنایا جاتا ہے تو، اسے سیاسی انتقام کا نام دے چند عرصے بعد نہ صرف وہ سب کیس ختم کر دیے جاتے ہیں بلکہ یہ لوگ پھر سے سیاست کے میدان میں قدم رنجا ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں تین بڑی قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں موجود ہیں، پاکستان مسلم لیگ (نواز)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور پاکستان تحریک انصاف، اس وقت چند ایک سیاستدانوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی کی ان تینوں پارٹیوں سے وابستگی رہی ہے، اور یہ ہر دور اقتدار میں حکومتی نشستوں پر براجمان رہے ہیں، ایسے میں"کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں" والا مصرع صادق آتا ہے، کہ سیاسی جماعتوں پر کیسے اعتبار کیا جا سکے کہ وہ عام آدمی کے مفاد کو مقدم رکھیں۔

متواتر سیاسی بھونچال نے اس ملک کی معیشت تباہ کرکے رکھ دی ہے، پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہوگا جہاں کرپشن عروج پر نہ ہو، پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے در بدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔

ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں جہاں ناقص سیاسی قیادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، وہاں بیوروکریسی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، افسر شاہی نے اپنے آپ کو اس قدر اعلیٰ مخلوق تصور کیا ہوا ہے کہ، خود بادشاہ سلامت گردانتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آنے والے عام لوگوں کو سائل کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔

صاحب بہادر اپنے دفاتر میں موجود ہوں یا نہ ہوں ان کے دفاتر کے اے سی پنکھے لائٹیں بدستور چل رہی ہوتی ہیں۔

اکثر تو افسران سیٹ پر موجود ہونے کے باوجود ملنے آنے والے لوگوں سے ملنا تک گوارا نہ کرتے، ہاں اگر صاحب سے ملاقات کے لیے کوئی چاپلوس چمچا بطور حوالہ موجود ہو تو شاید قسمت یاوری کر جائے اور ملاقات کا شرف مل جائے، بارہا دیکھا گیا ہے کہ، فیلڈ میں جانے والے بیوروکریٹس اپنی شاہی سواری سے نیچے اترنے کی تکلیف بھی نہیں کرتے۔

اس ملک میں بیوروکریسی کو جو سہولیات اور مراعات میسر ہیں وہ شاید ہی تیسری دنیا کے ممالک میں سے کسی کو حاصل ہوں۔ مفت پیٹرول، پروٹوکول اور مہنگی ترین گاڑیوں کی فراہمی ان کو، یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتی کہ وہ پبلک سرونٹ ہیں، اسی لیے ان کی اکثریت کا طرز عمل حاکمانہ ہے، ان کے رویوں میں بہتری آنے کے بجائے دن بدن ان کی رعونت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

یہ اپنی بے پناہ طاقت اور عہدوں کے بے دریغ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں، اس ملک کی معیشت پر بیوروکریسی اور سیاستدان ایک زبردست بوجھ بن چکے ہیں کیونکہ ان کے اللے تللے پورے کرنے کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سخت ترین شرائط پر اب تک ہزاروں ارب ڈالر لیا جا چکا ہے، اس قرض کے ثمرات تو عوام تک کبھی نہ پہنچ پائے ہیں، مگر ان کے منفی اثرات نے پاکستانی عوام سے ان کی دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔

متوسط اور غریب طبقہ تو اس بد ترین مہنگائی سے مکمّل طور تباہ حال ہو چکا ہے، سندھ میں چند روز قبل بہت سے بچوں کی بھوک سے مرنے کی خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔

غریب عوام پر آئی ایم ایف کے قرضے کی شرائط بجلی بن کر گر رہی ہیں، رہی سہی کسر حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے پوری کر دی ہے، جس رفتار سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں اس کے برعکس جب اب عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں زبردست کمی واقع ہوئی ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچائے جا رہے ہیں، سوال یہ بنتا ہے کہ، آخر عام آدمی کیا کرے، اس کی پہنچ سے تو اشیائے ضرورت آٹا، چاول، گھی چینی، دالیں، دور ہو چکی ہیں، حتیٰ کہ ان کے لی سبزی بھی مشکل ہو چکا ہے۔

اسحاق ڈار ماہر معیشت ہیں ان کو خاص طور اس لیے پاکستان بلایا گیا تھا کہ، پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر کیا جائے مگر نتائج تو اس کے برعکس نکلے، غریب آئے روز مہنگائی اور بدترین معاشی حالات سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کی آمدنی محدود ہے جب کہ مہنگائی اور روزمرہ اخراجات ہیں کہ وہ قابو ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔

اس وقت پاکستانی روپیہ غیر مستحکم ہے، جس کی قدر کو بہتر کرنے میں حکومت مکمل طور پر بے بس اور ناکام دکھائی دیتی ہے، جب زر کی قدر گرتی ہے تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا کرتا ہے، پاکستانی عوام، نازک موڑ، مشکل موڑ، معاشی چیلنجز اور کڑوا گھونٹ جیسے الفاظ سن سن کر تھک چکے ہیں۔

اب عوام مہنگائی، بد امنی اور بیروزگاری سے بیزار ہو چکے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے ایک سال میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد، اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم حامل افراد پاکستان سے ہجرت کرکے جا چکے ہیں، انسانی وسائل کا اس طرح سے ملک چھوڑ جانا کسی قومی سانحے سے کم نہیں ہے۔

خدارا ارباب اختیار عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائیں، اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومی قیادت کو اکٹھا بیٹھ کر ملک کے بہترین مفاد مستقبل کے لیے کوئی قابل عمل لائحۂ عمل اختیار کریں، پاکستان کی خاطر اپنے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، مضبوط سیاسی نظام کی خاطر قومی ڈائلاگ کریں، شاید ملکی سیاست میں کوئی بہتری کی صورت نظر آجائے، کیونکہ ایک مضبوط سیاسی نظام پائیدار معیشت کی ضمانت دے سکتا ہے، دوسری جانب ملکی بیوروکریسی کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، ان کو چاہیئے کہ جس ملک نے انہیں نام وقار اور عہدے پر فائز کیا ہے اس کا قرض اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے انجام دے کر اتاریں، عوام کو عزت دے کر اور ان کے مسائل کو حل کرکے ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں۔ پروردگار عالم، ملک پاکستان پر اپنا فضل فرمائے آمین۔

About Syed Imran Ali Shah

Syed Imran Ali Shah, a highly accomplished journalist, columnist, and article writer with over a decade of experience in the dynamic realm of journalism. Known for his insightful and thought-provoking pieces, he has become a respected voice in the field, covering a wide spectrum of topics ranging from social and political issues to human rights, climate change, environmental concerns, and economic trends.

Check Also

Sharmeela Multani Billa

By Rauf Klasra