Berozgari Badtareen Nasoor
بیروزگاری بدترین ناسور
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے کہ جن کی ترقی کی رفتار نہ ہونے کر مترادف ہے، گزشتہ ستتر سالوں میں معاشی خود مختاری کے حصول کا خواب محض ایک خواب بن کر رہ چکا ہے، روز اول سے ہی ارضِ وطن کو ان گنت مسائل اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے، سیاسی عدم استحکام اور ناقص حکمت عملی نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے، بات یہیں تک نہیں رکتی رہی سہی کسر کرپشن، اقرباء پروری، مہنگائی، دہشتگردی، بدامنی، قابل سیاسی قیادت کے فقدان، اور روز بروز بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے پوری کردی ہے۔
ماہرین معاشیات کے نزدیک کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے اہم ترین وسائل میں قدرتی و معدنی وسائل کے بعد انسانی وسائل کو اولین حیثیت حاصل ہے، پاکستان اس دنیا میں گنتی کے ان چند ممالک میں شامل ہوتا ہے کہ جہاں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، 2023 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 64 فیصد30 سال سے کم عمر کا ہے جبکہ ان میں 29 فیصد 15 سے 29 سال پر مشتمل ہے۔ اس طرح پاکستان یوتھ پاپولیشن کے حوالے سے دنیا کا نمبر ون اور 15 تا 29 کی عمر کے حوالے سے خطے میں دوسرا بڑا ملک ہے۔ افغانستان 15 تا 29 سال کی آبادی کے حوالے سے ساؤتھ ایشیا ریجن میں پہلا نمبر ون ملک ہے۔ نوجوانوں کی اس قدر کثیر تعداد کسی نعمت سے کم نہیں ہے، کیونکہ نوجوان طبقہ اس قدر مؤثر ہوتا ہے کہ وہ قوم کی تقدیر بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا بیان کردہ عامل بظاہر خوش کن اور مثبت ہے لیکن اگر اس عامل کے ساتھ اتنی بڑی یوتھ کے ساتھ مناسب سلوک نہ کیا گیا تو یہی خوش کن عامل ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت پاکستانی نوجوانوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بیروزگاری کا ہے اور یہ مسئلہ اتنی شدت اختیار کر چکا ہے کہ چند روز قبل ٹیلی وژن پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سپورٹس کمپلیکس میں 32 ہزار نوجوانوں کے پولیس کانسٹیبل کی صرف 1667 اسامیوں کے لیے تحریری امتحان میں شرکت کے نے ڈھیروں سوالات کو جنم دیا۔
دنیا بھر میں نوجوانوں کو قوم کا اثاثہ تسلیم کیا جاتا ہے اور ملک و قوم کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے تو پھر ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان و دربدر کیوں ہے؟ دنیاکے اکثر ترقی یافتہ ممالک تارکینِ وطن کو مستقل شہریت دیتے ہوئے ہنر مند نوجوانوں کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ملک کی ترقی کا پہیہ تیز تر ہو جبکہ ملکِ عزیز کے نوجوانوں کی کثیر تعداد تعلیمی اسناد ہاتھوں میں لیے ملازمت کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔
آج پاکستان کا نوجوان اپنے ملک کو چھوڑ کر جانے کے لیے بیتاب دکھائی دیتا ہے۔ برین ڈرین ملک کے دانشورانہ سرمائے کو ایک اہم نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ روشن ذہن اور ہنر مند پیشہ ور افراد اپنی مہارت کو کہیں اور لے جاتے ہیں، جس سے ایک خلا رہ جاتا ہے جسے پُر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مزید برآں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیلات زر، جو طویل عرصے سے معیشت کے لیے لائف لائن رہی ہیں، کم ہو سکتی ہیں کیونکہ زیادہ افراد بیرون ملک مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔
محفوظ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان کا نوجوان آج پاکستان سے غیر معمولی تعداد میں بیرونِ ملک جا رہا ہے۔ موجودہ سال کے پہلے سہ ماہی میں دو لاکھ پاکستانی نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا۔ اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو چند سالوں میں پاکستان میں اعلی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور ذہین افراد پاکستان میں ناپید ہو جائیں گے۔
موجودہ سال کے پہلے سہ ماہی میں دو لاکھ پاکستانی نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا۔ اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو چند سالوں میں پاکستان میں اعلی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور ذہین افراد پاکستان میں ناپید ہو جائیں گے۔ پاکستان کی معیشت اس قدر غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے کہ لوگ سرمایہ کاری کرنے سے بھی خوف کا شکار نظر آتے ہیں، دوسری طرف نوجوانوں کے لیے، نوکری کے حصول کا ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے، میرا بہت سے نوجوانوں سے واسطہ رہتا ہے، ان میں مجھے ایک عجیب سے بے چینی اور ناامیدی دکھائی دیتی ہے۔
اب تو معاشی حالات اس قدر ابتر ہیں کہ نوجوان بچے بچیوں کے لیے نوکری کے درخواست کے ساتھ لگانے کے لیے اپنی تعلیمی اسناد کی فوٹو کاپیاں کروانا بھی ناممکن ہوتا چلا جا رہے ہے، اس کے علاوہ ڈاک اور کوریئر کے اخراجات بھی بے تحاشا ہیں، متوسط طبقہ تو اس مہنگائی کے دور میں مکمل طور پر دیوار سے لگ چکا ہے، مگر پھر بھی وہ اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کوئی اٹھا نہیں رکھ رہے، مگر جب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا مستقبل ہی غیر یقینی نظر آئے گا تو وہ کیا کریں۔
پچھلی ایک دہائی سے سرکاری ملازمتیں تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں، اور اس وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اوور ایج ہوگئی ہے، اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے، جب نوجوانوں کو باعزت روزگار نہیں ملے گا تو ان کا رجحان از خود منفی سرگرمیوں کی جانب ہوگا، ایسے میں ملک دشمن عناصر ان نوجوانوں کو چند ممالک ٹکوں کی لالچ دے انہیں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔
حکومت اپنے طور بہت سے اقدامات کر رہی مگر وہ ناکافی ہیں، اس وقت وفاق اور صوبوں کو یکجا ہو کر، بیروزگاری کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے نہایت مؤثر اور ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے، پورے ملک میں نویں، دسویں سے لے کر بی ایس کلاسز تک کے امتحانات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں گورنمنٹ کے اساتذہ کو نگرانی کے فرائض سونپے جاتے ہیں، جس بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے اور میعار تعلیم بھی متاثر ہوتا ہے، تو ان کے متبادل کے طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔
اسی طرح سے محکمہ صحت کی بہت ساری سرگرمیاں ہوتی ہیں جہاں اساتذہ کرام اور دیگر سرکاری ملازمین اپنے اپنے اصل امور چھوڑ کر یہ فرائض سر انجام دیتے ہیں، اگر یہی ذمہ داری بیروزگار نوجوانوں کو سونپی جائے تو وہ یہ تمام امور بخوبی سرانجام دیں گے، نوجوانوں کو اسکولز اور کالجز میں طویل مدتی مع معقول معاوضوں کے انٹرنشپ کے مواقع دیے جانے تاکہ ان کی مایوسی کو ختم کیا جا سکے۔
نوجوانوں کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کے جدید ترین علوم کے حصول کو نہ صرف سہل بنانا ضروری ہے بلکہ ان کو کورسز کی تکمیل کے بعد فوری طور پر روزگار کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا، نوجوان ہی ملک کا حقیقی اثاثہ ہیں، ضرورت اس امر کی ہے حکومت ان کی بھرپور سرپرستی کرے تاکہ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر، ان کو ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔