Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Atif Kazmi
  4. Abba Ji

Abba Ji

ابا جی

ابا جی 1929 کی پیدائش تھے۔ قد چھ فٹ، رنگ سرخ و سپید اور کسرتی جسم کے مالک تھے۔ بقول ان کے تقسیم کے وقت وہ کڑیل جوان تھے اور سکھ احباب سے کبڈی بھی کھیلتے رہے۔ ابا جی کی زندگی کے پہلے 45 سال مسلسل کھیتی باڑی کرتے گزرے اور بعد کے دو عشرے انہوں نے سنگر فیکٹری کراچی میں سپروائزر کی نوکری میں کاٹے۔ زمینداری کے دنوں وہ علی الصبح ہل چلاتے اور کنویں پہ بیل گدھی جوت کر کھیت سیراب کرتے تھے۔ دھنی نسل کے بیل اور اچھی گھوڑی رکھنا ان کا شوق تھا۔ کبڈی، زور آزمائی کے علاؤہ گاؤں کی سطح پہ چھٹ اٹھاتے تھے اور اپنے زمانے کے شہہ زور خوبصورت جوانوں میں ان کا شمار تھا۔

ابا جی نے تین شادیاں کیں تھیں۔

ان کی پہلی اور دوسری شادی 1960 کی دہائی میں جب کہ تیسری شادی 25 اپریل 1971 ہماری والدہ سے ہوئی۔ شادی کے وقت ہماری والدہ کی عمر 17 برس اور ابا کی عمر 45 سال تھی۔ پہلی دو بیویوں سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی جب کہ اماں کے بطن سے ہم چھ بہن بھائی پیدا ہوئے۔ اماں بتاتی ہیں کہ

"تمہارے ابا پہ اپنے دور کی بہت سی حسینائیں عاشق تھیں جن میں سے ایک میں بھی تھی۔ تمہارے ابا کا میری زندگی میں آنا دنیا میں جنت مل جانے جیسا تھا۔۔ وہ بہت خیال رکھنے والے شوہر تھے۔ میں حیران ہوں کہ تمہارے ابا جان کو بچوں کی کبھی بھی ویسی خواہش نہیں رہی جیسی مجھے تھی۔ میں نے تو شادی کے 6 ماہ بعد ہی مزاروں پہ اولاد کی منتیں مانگنی شروع کر دی تھیں اور پھر۔۔ میرے بطن سے 4 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ میں نے پہلی بیٹی کے بعد ہر بیٹی اس آس پہ پیدا کی کہ اب کی بار بیٹا پیدا ہوگا۔

ہر بیٹی کی پیدائش پہ تمہارے ابا مٹھائی اور حلوے تقسیم کرتے اور میرا بگڑا چہرہ دیکھ کر تسلی دیتے کہ بیٹے سے بہتر بیٹیاں ہوتی ہیں، اتنا مت سوچو کہ بیمار پڑ جاؤ۔ لیکن اوپر تلے بیٹیوں کی پیدائش سے میرا حوصلہ جواب دے چکا تھا اور بیٹے کی خواہش نے مجھے ادھ موا کر دیا تھا۔۔ اور پھر۔۔ میری مناجات اور دعائیں رنگ لائیں، بالآخر پانچویں نمبر پہ بیٹا پیدا ہوا تو مجھے سکون آیا۔۔ لیکن یہ سکون بھی عارضی تھا۔ دل نے پھر حسرت کی کہ کاش دو بیٹے ہوں اور اس خواہش کا اظہار جب میں نے تمہارے ابا جان سے کیا تو انہوں نے ماتھا پیٹ لیا مگر میں کہاں رکنے والی تھی، یہاں تک کہ دوسرا بیٹا پیدا کرنے کے چکر میں پانچویں بیٹی بھی پیدا کر لی"۔

اماں کی باتیں سن کر مجھے پتہ چلا کہ اکثر و بیشتر خواتین کی طرح بچے پیدا کرنے کا زیادہ شوق میری والدہ کو ہی تھا۔ ہو سکتا یہ شوق سے زیادہ مجبوری بھی ہوتاکہ سسرال میں قدم جم سکیں لیکن جو بھی تھا میری والدہ نے صاف گوئی سے سب بتا دیا۔ لہذا وہ عورتیں جو زیادہ بچے پیدا کرنے کا سارا قصور مرد پہ ڈالتی ہیں انہیں بھی میری اماں کی طرح سچ بولنے میں قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

ابا اور اماں کی محبت کی شادی تھی۔ میں نے تمام عمر اماں اور ابا جی کو جھگڑتے نہ دیکھا اور آخری عمر تک ان کا عشق جوان رہا۔ اماں نہایت شوہر پرست خاتون تھیں ابا بھی ان سے پیار کرتے تھے لیکن ابا جان کافی حد تک غصیلے اور اپنی دھونس جمانے والے تھے۔ ابا جان تیز طرار نہ تھے، ان کی سادگی کا کچھ مخصوص قرابت داروں نے فایدہ اٹھایا اور ابا نے کچھ ایسے غلط فیصلے لیے جن کے منفی نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

1993 جب ابا دونوں ٹانگوں سے اپاہج ہو کر بستر کے ہو گئے تو چھ بچوں کی ذمہ داری کا بوجھ اماں جیسی باپردہ خاتون کے ناتواں کاندھوں پہ آ گرا۔ پس اماں نے برقع اتار پھینکا اور وہ کام بھی کئیے جو مردوں کے کرنے والے تھے۔ ابا جان چارپائی پہ تھے لیکن ان کا اس قدر رعب ہوتا تھا کہ ہم سب دبکے رہتے تھے۔ ابا جان شدید ذہنی اذیت میں دن بھر حقہ پیتے تھے اور اس دوران وہ اکثر ہمیں کہانیاں، منقبت، نعت، نور جہاں محمد رفیع کے پرانے گیت سناتے اور بات بے بات وعظ و نصیحت بھی کرتے رہتے تھے۔ جوانی میں ابا کے بے شمار یار تھے لیکن وہ جب اپاہج ہوئے تو سب بیلی چھوڑ گیے، یاروں سے ابا جان کو بے حد گلے شکوے تھے۔ جب کبھی ان کا کوئی دوست ہمارے گھر کے کھلے کواڑ کے سامنے سے دوسری جانب منہ کئے گزرتا تو ابا جان پیچ و تاب کھاتے ہوئے پھٹ پڑتے۔

"دیکھو تو اس بے غیرت کو، ساری زندگی میرے ساتھ کھیل کود کر بڑا ہوا، تمام زندگی اچھے برے کام مل کر کئے، ایک تھالی میں کھایا ایک کٹورے میں پیا مگر آج بھیڑ کی طرح منہ اگلی ٹانگوں میں دبائے جا رہا ہے۔ پُتر چلتی کا نام گاڑی ہے۔ جب تک میرے پران رہے یہ سب ساتھ رہے اور اب کمبخت اس لیے میری دہلیز پہ نہیں آتے کہ اپاہج شاہ خاطر داری کرنے کے قابل نہیں رہا۔۔ آہ کبھی دوستو پہ بھروسہ نہیں کرنا چاہئیے، یہ طوطا چشم فصلی بٹیرے ہوتے ہیں"۔

زندگی کے آخری 13 سال انہوں نے ذیابیطس، ٹی۔ بی، اپنڈکس اور امراضِ قلب کو بھگتا۔ 16 جولائی 2007 ان کا انتقال تیسرے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوا۔ ان کی زندگی سے جڑے بے شمار دل چسپ واقعات، بے شمار یادیں ہیں جو انشاللہ میں اپنی آپ بیتی میں لکھوں گا۔

Check Also

Mazeed Jhoot Boliye

By Rao Manzar Hayat