Salam Ustad, Rehbar Aur Hamdam
سلام استاد، رہبر اور ہمدم
ہم ہر سال 5 اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن مناتے ہیں یعنی "ٹیچرز ڈے" جو بین الاقوامی سطح پر بھی منایا جاتا ہے اور ملکی سطح پر بھی۔ اساتذہ کو خوب اچھے اچھے القابات دئیے جاتے ہیں اور انکی شان میں بڑی بڑی باتیں بھی کی جاتی ہیں جو اگلے ہی دن خود اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ اگر ہم تھوڑی سی مناسب حکمت عملی تیار کرلیں تو شاید بہت سے اساتذہ کا بھلا ہو جائے گا اور وہ جو اتنے ذہنی دباؤ اور اندرون خلفشار کا شکار رہتے ہیں، شاید اس سے بچاؤ بھی ممکن ہو سکے۔ یہ سب اتنا مشکل بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی نا ممکن ہوگا بس مل کر بیٹھنا ہوگا اور کچھ اساتذہ سے بھی رائے لینی ہوگی کہ ان کو کون کون سی مشکلات درپیش آتی ہیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں، تب ہی سب ہو پائے گا ورنہ ہمیشہ کی طرح معاملہ بس تصاویر اور سٹیٹس تک ہی رہ جائے گا۔
آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ہم اپنے بچوں کو سکھائیں کہ استاد کا ادب اور احترام کیا ہے بلکہ یہ بھی باور کروائیں کہ اس کا درجہ روحانی ماں باپ کا سا ہے اور ماں باپ کو بھی گھر میں استاد کا ذکر ادب اور احترام سے کرنا چاہیے کیونکہ بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
آج کل کے جدید اور تیز رفتار دور کے بچے استاد کو اپنا ہم پلہ اور ہم منصب سمجھتے ہیں اور اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ ہر بات کا واپس جواب دے کر بہت بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں جبکہ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ بڑوں کے آگے ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ آپ کی قابلیت جانچنے کا پیمانہ ہے۔ ان کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ تمام پیغمبر بحیثیت معلم ہی دنیا میں دین کی تبلیغ کا کام کرکے گئے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ہمارے پیارے نبی آقا کریم ﷺ بھی بحیثیت معلم دین کی تبلیغ کا کام کرکے گئے ہیں تو اس شعبے کو عام نہ سمجھیں جو کہ پیغمبروں کا شیوہ رہ چکا ہے۔
آج کے بچے کل کا مہذب شہری بنیں گے مگر تب ہی بنیں گے اگر ان کو اس بات کا شعور اور آگاہی دی جائے گی اور اس میں والدین کا کردار بہت اہم ہے کہ اپنے بچے کی غلطیوں کو چھپانے کی بجائے ان کی اصلاح کریں اور انکو گاہے بگاہے سمجھاتے رہیں کیونکہ بچے تو بچے ہیں وہ تو بار بار غلطی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی ذمہ داری اچھے سے نبھانی ہے کہ انکی غلطیوں کو درگزر کریں اور انکی اصلاح کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ بس وقت گزاری کے لئے کام نہ کریں بلکہ جن کو واقعی لگتا ہے کہ وہ بہترین استاد بن سکتے ہیں اور بچے کے لئے روحانی ماں باپ کا کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ہی اس شعبے کو اختیار کریں تاکہ مستحق لوگوں کا روزگار خراب نہ ہو۔
مزید برآں یہ کہ اداروں کو بھی مناسب حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ ان کے اوقات کار مناسب کئے جائیں، کام اتنا ہو جتنا ایک شخص کے لئے کرنا آسان ہو۔ کام کی جگہ کا ماحول اتنا آرام دہ ہو کہ سب اپنا کام بغیر ذہنی دباؤ کے کر سکیں اور خاص طور پر خواتین اساتذہ کے لئے سہولیات زیادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نوکری کا ساتھ اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں بھی اچھے سے نبھا سکیں۔
اگر ہم سب مل کر اس مسئلے پر غور و فکر کریں اور اپنی آراء حکام بالا تک پہنچا سکیں تو شاید بہت سوں کا بھلا ہو جائے اور وہ نوکری سے بھاگنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ اس سے ایک تو ہمیں اچھے اور قابل اساتذہ ملیں گے اور دوسرے ان کے گھروں کے چولہے بھی خوش اسلوبی سے چل سکیں گے۔
آخر ایک مضبوط معاشرہ تبھی تو وجود میں آئے گا جب اس میں کام کرنے والوں کے حقوق پورے ہوں گے۔