Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sumaira Anwar/
  4. Har Ghar Mein Kaam Wali

Har Ghar Mein Kaam Wali

ہر گھر میں کام والی

آپ کا اپنا گھر ہے، جسے آپ کی ضرورت ہے۔ یہ اتنی بے ترتیبی کیوں ہے؟ ہر چیز بکھری پڑی ہے۔ یہ پھیلاوا آج کیوں نہیں سمیٹا؟ دفتر واپسی پر شوہر نے غصے سے گھر کا گندا ماحول دیکھ کر کہا۔ وہ آج ماسی نہیں آسکی اس لیے کوئی صفائی نہیں ہوئی، اب تو کل ہی سب کچھ ٹھیک ہو سکے گا۔ بیگم نے پاؤں پسارتے ہوئے ٹی وی کا والیم اونچا کر لیا۔

فریج میں کچھ پھل وغیرہ رکھے ہیں، آپ وہی نکال کر کھا لیں کیونکہ آپ کو تو علم ہے مجھ سے کچن کا کام نہیں ہوتا، وہی نامراد ماسی ہی سب کچھ کرتی ہے، اور آج اس نے بلاوجہ ہی چھٹی کر لی۔ ماسی کو کوستے ہوئے وہ پھر سے اپنے شغل میں مصروف ہو گئیں۔ یہ حالت صرف ایک گھر کی ہی نہیں ہے۔ بلکہ بہت سارے گھرانوں کا یہی حال ہے۔

گھر کا سارا انتظام کام والیوں کے ذمہ لگا دیا گیا ہے۔ وہی بچوں کو ناشتہ بنا کر دے، اسی نے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا ہے، اور انہیں گیٹ تک بھی چھوڑنے کا فرض اسی کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔ کام والیوں کو کچھ خواتین نے اتنا سر پر چڑھا رکھا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر کی سب سیٹنگ کرتی ہیں، چاہے گھر کے مرد حضرات اور بچوں کو یہ ساری تبدیلی پسند آئے یا نہ آئے۔

ماما، آج مجھے آپ کے ہاتھ کا پراٹھا کھانا ہے۔ پلیز، جلدی سے بنا دیں پھر مجھے اسکول بھی جانا ہے۔ یہ ایک دس سال کے بچے کی آواز تھی۔ جس کے دل میں اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا پراٹھا کھانے کی خواہش مچلی تو وہ بے اختیار کہہ بیٹھا۔ لیکن اس کا جواب کیا ملا، آپ سن کر حیران رہ جائیں گے۔ بیٹا، ملازمہ بناتو رہی ہے تم بس جلدی سے میز پر آجاؤ، ابھی تازہ اور خستہ پراٹھے آتے ہیں، مزے سے کھانا۔

وہ بیٹے کی خواہش کو نظر انداز کرتی ناشتے کی میز پر اخبار لیے بیٹھ گئی۔ لیکن ماما، مجھے آپ کے ہاتھ کا پراٹھا چاہیے، پلیز ماما، وہ خفا ہوتے ہوئے پھر سے بولا۔ اف بیٹا، یہ کس طرح کی ضد ہے؟ بس خاموشی سے ناشتا شروع کرو۔ اب اماں کا پارہ چڑھ گیا تھا تو معصوم بچہ چپ ہوگیا۔ آپ اپنے بچوں کو بری طرح نظر انداز کر رہی ہیں، وہ آپ کی توجہ اور چاہت کے طلب گار ہیں۔

لیکن آپ سب کام ماسی سے کرواتے ہوئے ناشتے کی ذمہ داری سے بھی دست بردار ہو گئی ہیں، تویہ بات گھر کے ماحول کو مزید کشیدہ بنا سکتی ہے۔ اس طرح تو بچے آپ سے دور ہو جائیں گے۔ جس کے ساتھ ساتھ وہ چڑ چڑے ہونے کے ساتھ ضدی اور بدتہذیب بھی ہو جائیں گے۔ گھر کی صفائی اور جھاڑ پونچھ تو چلیں ملازموں کے سپرد سہی لیکن ناشتہ اور کھانا تو خواتین اپنے ہاتھوں سے بنا سکتی ہیں اور انہیں بنانا چاہیے۔

اس کے بہت سارے فائدے ہوں گے۔ اس سے نہ صرف آپ کا گھریلو ماحول خوشگوار ہو گا۔ بلکہ آپ کے بچوں اور شوہر کے دل میں بھی آپ کے لیے مزید محبت بڑھے گی۔ گھر کے اچھے اور برے ماحول کی زیادہ ذمہ دار خواتین ہوتی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے آشیانے کو ان کام والیوں یا ملازماؤں کے سپرد نہ کریں، بلکہ جتنا ممکن ہو، کوشش کریں کہ اپنے قریبی رشتوں کو بچائیں اور اپنے ساتھ ساتھ رکھیں۔

یہ ملازمائیں یا کام والیاں ایک طرف تو آپ کی خوشامد میں لگی رہتی ہیں، تو دوسری طرف آپ کے محلے یا دوسرے محلے میں رہنے والی آپ کی نند یا بھاوج کو ساری خبریں بھی پہنچاتی ہیں۔ ان سے ہر بات ڈسکس نہ کیا کریں، کیونکہ ضروری نہیں کہ سب کام والیاں مخلص ہوں اور آپ کی کوئی بات آپ کے تمام پڑوسیوں، سب رشتہ داروں اور دوست احباب تک نہ پھیلائیں۔

آ پ کی ہمدردی بٹورنے کے لیے وہ خود کو پیش پیش رکھتی ہیں اور ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، تاکہ آپ کے زیادہ قریب رہیں، مگر کچھ خود دار ماسیاں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ جو اپنا پورا کام ایمان داری سے سر انجام دیتی ہیں اور کام سے فارغ ہوکر وہ خاموشی سے اپنے گھر کو روانہ ہو جاتی ہیں۔ ایک اور بات، آپ کو اپنی کام والیوں پر اعتبار کرتے ہوئے اپنے ذہن میں بٹھانی چاہیے کہ کبھی بھی اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کے ان کے حوالے کر کے باہر نہیں نکلیں گی۔

اس حوالے سے آج کل سوشل میڈیا اور اخبارات پر آئے دن آگاہ کیا جا رہا ہوتا ہے کہ فلاں شہر سے ایک ملازمہ اتنے پیسے اور زیور لے کر فرار ہوگئی۔ یہ ساری خبریں جھوٹی یا بے بنیاد تو نہیں ہوتیں ناں، بچے تو ویسے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ بعض تیز اور چالاک ماسیاں ان سے بھی ان کے گھر کی ہر بات اگلوا لیتی ہیں اور بچے اپنی معصومیت میں انہیں وہ سب کچھ بھی بتا دیتے ہیں، جو ان کے والدین اپنے رشتے داروں کو بھی نہیں بتاتے۔

اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ گھر کی کوئی اہم بات بچوں کے سامنے نہ کی جائے، تاکہ وہ بات ماسیوں تک نہ پہنچ پائے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہی راز کی بات صبح ہوتے ہی آپ کے بچوں سے ہوتی ہوئی نوکرانیوں تک اور پھر وہاں سے پلک جھپکتے میں آپ کے قریبی رشتے داروں کے کانوں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اگر ملازمہ رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، تو چند گھنٹوں کی صفائی کے لیے اس کو بلائیں اور اپنی نگرانی میں کام ختم کرواکر اس کو بھیج دیں۔

باقی گھر کے تمام کام آپ خود کریں، اور بہت اچھی طرح دیکھ بھال کے بعد کریں، ہفتے میں ایک بار مشین لگوا کر ان سے کپڑے دھلوالیں اور دو دن گھر کی صفائی کے لیے مخصوص کرلیں، تاکہ کم سے کم وقت میں وہ اپنا کام مکمل کر لیں۔ ان کو اجرت دینے میں آپ اتنی بھی کنجوسی نہ برتیں کہ وہ اگلے دن آپ کا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر کا رخ کرلیں، لیکن ساتھ ساتھ اتنا بھی سر پر مت چڑھائیں کہ ایڈوانس لے کر وہ آپ کو بار بار تنگ کریں۔

اور پھر آپ کو خود ہی اسے کام سے جواب دینا پڑ جائے۔ کچھ خواتین اپنی کام والیوں سے کام تو بہت لیتی ہیں، لیکن تنخواہ دینے میں کافی چون و چرا کرتی ہیں اور اکثر یہ کہتی رہتی ہیں کہ ابھی تن خواہ نہیں ملی، جب ملے گی تو دے دوں گی۔ جس طرح آپ کے گھر کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح وہ بھی تو اپنی محنت کی وصولی کا پورا مہینہ انتظار کرتی ہیں۔

اگر انہیں پیسوں کی ضرورت نہ ہو تو وہ آپ کے گھر میں کام کرنے کیوں آئیں؟ چناں چہ کوشش کرنی چاہیے کہ تمام کام والیوں کو وقت مقررہ پر ان کی اجرت دے دیں، تاکہ وہ مزید ایمان داری اور اچھے طریقے سے گھریلو کاموں پر توجہ دے سکیں اور ان کے اپنے گھر کے کام بھی انجام دیے جاسکیں۔ ایسی خواتین جو کسی بیماری کی وجہ سے گھر کے کام بالکل نہیں کر سکتیں اور انہیں فل ٹائم ملازمہ کی ضرورت ہو۔

تو انھیں چاہیے کہ اچھی طرح دیکھ بھال کرکے کسی کام والی کا انتخاب کریں، پختہ عمر کی خاتون کو ترجیح دیں، کیوں کہ کم عمر بچیاں ایک تو ناسمجھ ہوتی ہیں، اور دوسرے ان کو اچھے برے کی تمیز بھی نہیں ہوتی، اس موقع پر انہیں زمانے کی اونچ نیچ سیکھانا بھی آپ کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ جو ایک بہت مشکل کام ہے۔ ایک بات اور، جب بھی کسی گھریلو ملازمہ کا انتخاب کریں تو اس کا شناختی کارڈ ضرور لے لیں تاکہ بہ وقت ضرورت کام آئے۔

سب خواتین کی اپنے گھر پر زیادہ توجہ کرنی چاہیے، کیوں کہ بالخصوص ایک ماں کے لیے اپنے گھر کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال ہی اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، اس سے آپ کا گھر محفوظ بھی رہے گا، ویسے بھی یہ گھر تو آپ کا ہے ناں، اس گھر کی رانی آپ ہی ہوں گی، کوئی کام والی نہیں، ہے نا ں پتے کی بات۔

Check Also

Zindagi Bas Aik Round Aur

By Arif Anis Malik