Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Happy Teachers Day

Happy Teachers Day

ہیپی ٹیچرز ڈے

لفظ "معلم یا ٹیچر" پرانی انگریزی کے لفظ tæcan سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے "دکھانا، اشارہ کرنا، یا مظاہرہ کرنا"۔ لفظوں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ان کا آغاز ظاہر مختلف معنی رکھتا ہے اس مطلب سے جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ موجودہ دور کا ٹیچر جدید آلات سے لیس کلاس روم میں درس و تدریس سر انجام دیتا ہے۔ آج کے اساتذہ کرام ملٹی میڈیا، وائٹ بورڈ، سمارٹ بورڈ اور لیپ ٹاپ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں مگر ٹیچر کی اصل ہاتھ سے اشارہ کرنا اور مظاہرہ کر کے دکھانا ہے۔

تدریس کے عمل کا موازنہ اکثر کسی کی آنکھوں سے اون اٹھانے سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ انہیں کچھ حقیقت دکھانا تاکہ وہ کائنات کو تھوڑا بہتر سمجھ سکیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ "دنیا کا پہلا استاد کون تھا؟" یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کنفیوشس دنیا کا پہلا "باقاعدہ" استاد تھا۔ وہ ایک پرائیویٹ "ٹیوٹر" تھا جس نے تاریخ کا سبق دیا۔ اس سے پہلے صرف شاہی یا اعلیٰ افراد کو تعلیم تک رسائی کی اجازت تھی۔ تاہم، کنفیوشس نے اس تصور کو بدل دیا اور ہر اس شخص کو علم فراہم کیا جو سیکھنے کے خواہاں تھے۔

امیر اور امیر گھرانوں نے اپنے بیٹوں کو پڑھانے کے لیے اس سے رابطہ کیا۔ کنفیوشس نے طلباء کو تاریخ اور دیگر مختلف مضامین کے بارے میں سیکھنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ، اس نے اپنے طالب علموں میں ذمہ داریوں اور اخلاقی کردار کی نشوونما کے لیے اپنی حکمت بھی دی۔ وہ بھی وہ شخص تھا جس نے پہلے کسی سے زیادہ اساتذہ کی تعریف حاصل کی۔ قدیم زمانے میں اعلیٰ علم رکھنے والے اور سیکھے ہوئے لوگ "خود ساختہ" استاد بن جاتے تھے۔

پیغمبروں کو دنیا کے پہلے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے علم کو کتابوں اور صحیفوں کی شکل میں اپنے منتخب کردہ رسولوں اور نبیوں پر نازل فرمایا اور پیغمبروں نے اللہ کا دین علم کی شکل میں عوام میں روشناس کرایا، اچھے برے میں تمیز بتائی اور خدا کے بندوں کو خدا سے ملایا۔ یہی علم کی معراج ہے۔

آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں اساتذہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے آج ہم اپنے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جن سے ہماری زندگیوں سے ترقی کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ماں کی آغوش اور باپ کی غیر رسمی تربیت کے بعد ہماری انگلی ہمارے اساتذہ کرام تھام لیتے ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک ہم کچھ بن نہیں جاتے اور اس کے بعد بھی تھامے رہتے ہیں۔

ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا انمول، لازوال اور بے لوث رشتہ ہے جو زندگی کے ہر دوراہے پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ہمارے اساتذہ کرام ہمارے حقیقی سوپر ہیرو ہیں۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جنہوں نے مجھ جیسے کند ذہن، نکمے اور نالائق شاگرد کو کسی قابل بنا دیا۔ آج دل سے ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان سب کے لیے ڈھیروں دعائیں۔

اگر آپ آج یہ پڑھ رہے ہیں تو یقیناََ اس کے پیچھے کسی ٹیچر کی محنت اور لگن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیشے میں زیادہ روپیہ پیسہ نہیں بس عزت کمائی جاتی ہے۔ درحقیقت اسی پیشے میں سب سے زیادہ دولت ہے اور وہ دولت ہے محبت، خلوص اور چاہت کی۔ ٹیچر اچھے برے نہیں ہوتے، ٹیچر بس ٹیچر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیچر جان بوجھ کر اپنے طلبہ کو ایسے علم سے کیوں روشناس کرائے گا جس سے اسے نقصان ہو۔

آہ کچھ نفیس اور بہت پیارے اساتذہ اب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ سب کو غریق رحمت کرے۔ خاص طور پر میڈم شازیہ مظفر، ایم اے انگریزی کے دوران میڈم شازیہ نے کمال محنت اور لگن سے انگریزی لٹریچر ایسے گھول کر پلایا کہ جیسے سارے کردار ہماری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے۔ ہیملٹ ہو یا ڈاکٹر فاسٹس انہوں نے ہر کردار کو گویا ہمارے سامنے لا کھڑا کیا۔

اسی طرح اکاؤنٹنگ کے سر متین۔ آہ وہ بھی داغ مفارقت دے گئے۔ میں نے سائنس سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی طرف رخ کیا تو اکاؤنٹنگ اور اکنامکس جیسی بھاری بھر کم توپوں نے استقبال کیا۔ یونیورسٹی میں اکاؤنٹنگ دور سے گزر جاتی تھی۔ آخرکار سر متین سے ملاقات ہوئی اور اکاؤنٹنگ کا گر پا لیا۔

کچھ ٹیچر ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت کا نقش دل پر ثبت ہو جاتا ہے اور ہمیشہ قائم رہتا ہے انہی میں سے ایک میرے محترم جناب قمر زمان صاحب ہیں جو ہمیں انگلش لینگویج پڑھاتے تھے اور کیا پڑھاتے تھے، انگریزی ان کے منہ سے ایسے برستی تھی جیسے موتیوں میں پروئی ہوئی مالا۔ ان کا پڑھانا تو کمال تھا ہی، ان کی ظاہری شخصیت بھی کسی ماڈل سے کم نہ تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی دفعہ انہیں دیکھا تو کسی گورے کا خیال آیا۔

جب انہوں نے پشتو لہجے میں اردو بولی تب یہ عقدہ کھلا کہ موصوف تو پاکستانی ہیں۔ پھر تو معمول بن گیا ان کی کلاس کے بعد میں انہی کے لہجے میں ان کی نقل اتارتا اور اپنے ساتھیوں کو پڑھانے کی کوشش کرتا۔ وہ اکثر مجھے نوٹ کرتے اور محبت کا اظہار کرتے۔ یہ کیسی مہربان ہستیاں ہیں جو دوسروں کو کسی قابل بنانے کے لیے گھلے جا رہی ہیں۔ یہ وہ موم بتیاں ہیں جو دوسروں کو روشنی پہنچانے کی خاطر خود جل رہی ہیں۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar