Fitrat Ki Science Mein Depression Ka Ilaj
فطرت کی سائنس میں ڈپریشن کا علاج
ایک تعمیری، غیر متشدد تناؤ بھی ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے یہ الفاظ تناؤ یا tension عرف عام میں جسے پریشانی کہتے ہیں کے بارے میں ہیں۔ جب ہم دباؤ یا تناؤ محسوس کرتے ہیں تو اعصابی نظام ہمارے جسم کو تناؤ کے ہارمونز بشمول ایڈرینالین، ناراڈرینالین اور کورٹیسول کو جاری کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہ جسمانی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں تاکہ ہمیں اس خطرے یا نقصان سے نمٹنے میں مدد ملے جو ہمیں درپیش ہوتے ہیں۔ اسے "تناؤ کا ردعمل" یا "لڑائی یا فرار" ردعمل کہا جاتا ہے۔
تناؤ درحقیقت مثبت بھی ہو سکتا ہے اسے انگریزی میں Eustress کہتے ہیں۔ تناؤ کا ردعمل ہمیں چوکس رہنے میں مدد دیتا ہے، حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کام پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ تناؤ ہی کی وجہ سے تو طلبہ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ کوئی ملازم کام کرتا ہے۔ عام طور پر، جب دباؤ کم ہوتا ہے، تو جسم دوبارہ متوازن ہوجاتا ہے اور ہم دوبارہ پرسکون محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جب ہم اکثر یا بہت طویل عرصے تک تناؤ کا سامنا کرتے ہیں، یا جب منفی احساسات ہماری برداشت کرنے کی صلاحیت پر حاوی ہو جاتے ہیں، تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اعصابی نظام کی مسلسل سرگرمی - "تناؤ کے ردعمل" کا سامنا کرنا - جسم پر ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتا ہے۔
تناؤ یا stress بڑھ جائے تو anxiety اور ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انزائٹی اور ڈپریشن دونوں ہی انسانی صحت کے لئے بہت خطرناک ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اسٹریس چند گھنٹوں یا چند دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ اگر یہ جاری رہے تو کچھ دنوں بعد انزائٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اینزائٹی ایک بیماری کی شکل ہے اس میں انسان کا ذہن الجھنوں کا شکار رہتا ہے اور اسے کسی صورت قرار نہیں آتا۔ اینزائٹی اگر ہفتوں اور مہینوں پر مشتمل ہو تو ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ڈپریشن اسٹریس کی سب سے خطرناک شکل ہے۔ ڈپریشن میں مبتلا انسان ہی خودکشی جیسے قدم اٹھاتا ہے۔ انزائٹی اور ڈپریشن سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟
فطرت میں ہر چیز پانچ بنیادی عناصر سے بنی ہے: زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلا۔ پانچ عناصر کا علم ہمیں فطرت کے قوانین کو سمجھنے اور زیادہ صحت، طاقت، علم، حکمت اور خوشی حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ یہ گہرے وجدان سے پیدا ہوتا ہے کہ کائنات کیسے چلتی ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ سر درد جو کہ طبعی وجود نہیں رکھتا، دوا کھانے کی صورت میں دوا دماغ میں ایسے کیمیکلز کا اخراج کرتی ہے جس سے دماغ سکون کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ انزائٹی اور ڈپریشن بھی غیر طبعی کیفیات ہیں۔ ان سے دور رہنے اور بچنے کے لیے فطرت کے پانچ بنیادی عناصر سے جڑے رہیں۔ زمین سے مراد یہاں وہ تمام خوراک، اجناس اور پھل وغیرہ شامل ہیں نہ زمین پر پائی جاتی ہیں۔ تازہ خوراک اور موسمی پھل سے لطف اندوز ہوں اور ڈپریشن کو کریں بائے بائے۔
پانی فطرت کے انمول تحفوں میں سے ایک بہترین تحفہ ہے۔ اتنی وسیع اور اس کائنات میں یہ یہ نادر و نایاب شے صرف زمین پر پائی جاتی ہے۔ تازہ خوراک اور صاف پانی ہمارے جسم کی ضرورت اور فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ جسم میں پانی کی کمی سے ذہنی تناؤ کا آغاز ہوتا ہے جو آگے چل کر انزائٹی اور ڈپریشن میں بدل سکتا ہے لہذا پانی کا استعمال اشد ضروری ہے۔
ذرا تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو ایک بند اندھیرے کمرے میں قید کر لیں۔ یہ اندھیرا آپ کو ذہنی الجھنوں میں مبتلا کردے گا۔ آپ کا دماغ روشنی کی جستجو جو کرے گا۔ بالکل اسی طرح بہت زیادہ روشنی بھی ذہنی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ اب ذرا اندازہ کریں ہمارا کتنا وقت موبائل یا لیپ ٹاپ سکرین کے سامنے گزرتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق چھ گھنٹے ہم اسکرین کو تکتے ہیں، یہ زیادہ روشنی بھی یہ تناؤ یا ٹینشن کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ یہ مصنوعی روشنی ہے اور ہم سورج کی روشنی یا سن لائٹ کی افادیت سے بھی ناواقف ہونے کی بنا پر اس عظیم نعمت کا کفران کرتے ہیں۔ سورج کی روشنی فطری توانائی ہے اور ہمارے جسم کو اس کی ضرورت ہے۔ یورپین یوں ہی سن باتھ نہیں لیتے بلکہ وہ اس کے فوائد سے باخبر ہیں۔
سوچیں یہ پانچ فطری عناصر جو ہمیں مفت میں حاصل ہیں، اگر دام دے کر حاصل کرنے ہوتے تو دنیا میں کتنا خون خرابہ ہوتا۔ فطرت سے جڑے رہنے میں ہی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیں آخری بار آپ نے کب تازہ ہوا میں سانس لیا تھا؟ ہم اپنے بچپن میں گھروں کی چھت پر جایا کرتے تھے اور بعض اوقات سو بھی جاتے تھے۔ یہ تازہ ہوا جس کا کوئی نعم البدل نہیں، ایک بہترین ٹانک ہے۔
آج کا مشینی زندگی میں رہنے والا انسان جس نے صبح اٹھ کر کوہلو کے بیل کی طرح مشقت میں جت جانا ہے، اسے سر اٹھانے کی فرصت نہیں کہ کچھ دیر تازہ ہوا کے مزے لے، پرندوں کی انوکھی بولیاں سنے۔ کسی وسیع و عریض میدان یا پارک کا رخ کرے اور ننگے پاؤں گھاس پر چلے تو ذہنی دباؤ یا ڈپریشن سے خود کو آزاد محسوس کرے گا۔ ہمارے شہر کنکریٹ کا جنگل ہیں، اور ہم نے خود کو اس جنگل کی دیواروں میں بند کر رکھا ہے۔ فطرت سے جڑنے کے مواقع ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اسی لئے آج ذہنی تناؤ اور ڈپریشن جیسی بیماریاں منہ کھولے کسی ازدہے کی طرح ہمیں نگل رہی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی کا 5 فیصد ڈپریشن کا شکار ہے یہ تعداد 28 کروڑ بنتی ہے۔ ڈپریشن کے ان مریضوں میں سے 75 فیصد کو علاج کی سہولت تک میسر نہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں آپریشن اور ذہنی تناؤ کو بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسی رپورٹ کے مطابق سالانہ سات لاکھ لوگ ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کر گزرتے ہیں۔ ان سات لاکھ لوگوں میں زیادہ تر 15 سے 29 سال کے نوجوان ہوتے ہیں۔
خدارا! اسکرین ٹائم کم کریں اور خود کو فطرت سے جوڑیں۔ تازہ ہوا میں سانس لیں، کھلے ماحول میں کچھ وقت ضرور گزاریں۔ فطرت بانہیں پھیلائے آپ کی منتظر ہے۔