Dimagh Aik Tissue Paper
دماغ ایک ٹشو پیپر
"چھوٹے دماغ لوگوں پر بحث کرتے ہیں۔ اوسط ذہن واقعات پر بحث کرتے ہیں۔ عظیم دماغ خیالات پر بحث کرتے ہیں۔ " یہ کس کے الفاظ ہیں؟ اس کا کوئی مستند حوالہ دستیاب نہیں ہے مگر اس سے قطع نظر کہ یہ کس نے کہا ہے، یہ زیادہ اہم ہے کہ کیا بات کہی گئی ہے۔ اگرچہ دماغ چھوٹے، بڑے اور اوسط نہیں ہوتے۔ دماغ تو سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ پاور فل ہیں۔
انسانی دماغ میں کتنی میموری ہے، اگرچہ پیمائش نہیں کی جا سکتی مگر اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق انسانی دماغ کی میموری 25 لاکھ گیگا بائٹ ہے۔ آپ اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارے جسم میں موجود تمام آکسیجن میں سے 20 فیصد آکسیجن صرف دماغ استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ دماغ کا سائز جسم کا محض دو فیصد ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑایئے، ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباََ 64 فیصد نوجوان طبقہ ہے۔
یہ طبقہ عمر کے اس حصے میں ہے جس میں انسانی دماغ اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ جنون اور ذہانت کیا نہیں کر سکتی۔ اقبال کی خودی کی عملی تصویر بنا جا سکتا ہے۔ فیس بک کا مالک مارک ذکر برگ، ایلون مسک، سندر پچائی، ثمینہ بیگ، منیبہ مزاری، علی معین نوازش اور ارفع کریم جیسے جوانوں نے ایک جہاں کو نہ صرف اپنا گرویدہ بنا لیا بلکہ لاکھوں، کروڑوں پیروی کرنے والے انکی طرح بننا چاہتے ہیں۔ یہ سب عام سے لوگ ہیں۔
دن کا دورانیہ ان کے لیے بھی چوبیس گھنٹے ہے، ان پر بھی سردی، گرمی، بخار اور سر درد کا اثر ہوتا ہے۔ ان سب نے سخت حالات کا سامنا کیا ہے۔ تو پھر ان میں ایسا کیا تھا جو کامیابی ان کے سروں پر ہما کا تاج سجا چکی ہے؟ انہوں نے اپنے دماغ کو لوگوں اور واقعات پر بحث کرنے اور الجھنے کی بجائے آئیڈیاز پر کام کیا۔ دماغ کا یہ استعمال اعلیٰ ترین ہے۔ زندگی میں خواب دیکھنا اشد ضروری ہے۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مقصدیت کا عنصر زندگی میں شامل کرنا ہو گا۔
ہمارے نوجوان کی مقصدیت ملاحظہ کیجئے۔ digital 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کا ایوریج استعمال روزانہ کے 76 منٹس بنتے ہیں۔ 86,400 سیکنڈز روزانہ ہماری زندگی کی گھڑی میں ٹک ٹک کرتے گزرتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یقیناََ اچھا کام بھی ہو رہا ہے۔ یہ آگاہی پھیلانے اور فوری خبر میں بہت معاون ہے۔
مگر ہمارے نوجوان طبقے میں اچھی خاصی تعداد صرف "رہنماؤں" کو دیوتا یا ہر برائی کا "زمیندار" قرار دینے میں صرف کر دیتی ہے۔ انکا دماغ محض ایک ایسے ہتھیار میں ڈھل چکا ہے یا ڈھالا جا چکا ہے جو صرف لوگوں اور واقعات کو ڈسکسس کرنے میں ہی اپنا دماغ کھپا رہا ہے۔ وہ آئیڈیاز پر کام کر بھی رہا ہے تو وہ بھی ٹرولنگ کے لیے یا مزاحیہ میمز بنانے کے لیے۔
ملک کا اعلیٰ ترین طبقہ جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے چاہتا ہی نہیں کہ یوتھ کی تربیت کی جاۓ، انہیں سوک سینس دی جاۓ، ان کے دماغ کو اعلیٰ نظریات کی آماج گاہ بنایا جاۓ، مستقبل کے رہنما تشکیل دیے جائیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو انہیں man power کہاں سے ملے گی۔ مستقبل کے رہنما کا چناؤ تو وہ اپنے گھر سے کر لیں گے۔ وہ آپ کے دماغ کو کھنڈر بنانا چاہتے ہیں جس میں ان کے نام کا دیا جلتا رہے۔ ان کے مرنے کے بعد بھی۔
سیاستدانوں کو اپنی زندگی میں اتنا ہی وقت دیں جتنا انکی زندگی میں آپکی اہمیت ہے۔ اپنا گولڈن ٹائم لوگوں اور فضول واقعات جن سے آپ کو کچھ حاصل وصول نہیں ہو رہا پر بے رحمی سے لٹانے کے بجاۓ اپنے مستقبل کی کچھ خبر لیں۔ اپنی حالت خود بدلنی ہو گی کسی دیوتا کا انتظار نہ کریں۔ ہر انسان اپنے مفاد کے کھونٹے سے بندھا ہے۔ آپ اپنی جھونپڑی جلا کے دوسروں کا محل بچانے کے چکر میں نہ پڑیں، کیوں کہ جن کا محل ہے وہ آپ کی جھونپڑی کو اہمیت نہیں دیتے۔
آپ کی سیاسی جماعت نے آئندہ الیکشن میں اگر دو تہائی یا تین تہائی اکثریت حاصل کر بھی لی تو بھی یقین جانیے آپ کی حالت نہیں بدلے گی۔ حالت یہ ہے کہ موجودہ سیلاب میں سیلاب زدگان ایسے رل رہے ہیں کہ بیچاروں کا نا کوئی دادرسی کرنے والا ہے نا ہی کوئی خبر بنانے والا۔ ایک المیہ تو یہ جنم لے چکا ہے دوسرا بدترین المیہ یہ ہے کہ اس المیہ پر خاموشی ہے اور دماغوں کا اصل المیہ یہی ہے۔
یہ ایک تماش بین قوم بن چکی ہے یا بنا دی گئی ہے، دوسروں کے مسائل اور مصائب اپنے نہیں لگتے جب تک خود پر نہ بیتیں۔ "اوپر" سے نوٹس لیا جائیگا تو ہی نیچے کی مشینری کام کرنے کے لیے سٹارٹ ہو گی ورنہ جن کا کام ہے انھیں بھی کوئی پرواہ نہیں۔ حالانکہ گورنمنٹ کی تمام سرگرمیاں ایک ایس او پی کے تحت کام کرتی ہیں۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ضلعی انتظامیہ اور بیوروکریسی کہاں غائب ہو جاتی ہے اور بغیر نوٹس کے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
سیلاب زدہ لوگوں کے گھر بار، مال مویشی، فصلیں اور بچے، سب حکمرانوں کی 75 سالہ نا اہلیوں کی نظر ہو گئے۔ "اشرافیہ" اب بھی سیاست سیاست ہی کھیل رہی ہے اور کھیلتی رہے گی کیوں کہ یہ "پیشہ ور سیاستدان" ہیں۔ یہ کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کریں گے جس سے عام انسان کو فائدہ ہو، سیلاب جیسی آفتیں ہر سال سب کچھ بہا کے لے جاتی ہیں مگر سد باب کے لیے کبھی کام نہیں ہو گا۔
آپ اور میں اپنے کام چھوڑ کر لگے ہیں تجزیے کرنے کہ کون اچھا ہے کون برا؟ سیاست کرنا یا اسکا تجزیے کرنا برا فعل نہیں، اپنا مقصد "جی حضور اور ایسی کی تیسی" سے بدل کر باگ دوڑ سمبھالنے کی طرف کریں۔ میڈیا نے بھی "خبر" کو پروڈکٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہر فضول، بیکار اور متنازع بات اب خبر ہے۔ میڈیا بھی سیلاب کی خبر اسی وقت دکھائے گا جب "اوپر" والے اس کا نوٹس لیں گے۔ ہمارا مین سٹریم میڈیا ایلیٹ کلاس کا ملازم بن کر رہ گیا ہے۔
لوگوں پر بحث کرنے والا دماغ، دماغ کا سب سے کم تر استعمال ہے اور ہمارا 64 فیصد طبقہ اسی نہج پر پہنچ چکا ہے۔ آج حد یہ ہے کہ سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فورم جسے آپ آئیڈیاز کی منڈی بنا سکتے ہیں، ہمارے ٹک ٹاکرز انتہائی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہیں مگر بے چاروں کو سمت دینے والا کوئی نہیں۔ آج ضرورت ہے سوشل میڈیا کی تربیت دینے والے اداروں کی۔
آج کے سوشل میڈیا میں اتنا پوٹینشل ہے کہ آپ پیسہ، شہرت، عزت سے اپنی جھولی بھر سکتے ہیں، فی زمانہ لوگوں کو آگاہ کرنا، موبلائز کرنا، سیلاب زدگان کی مدد کرنا، سوشل میڈیا کے دور میں سب سے آسان ہے مگر اسے سواۓ "کچھ مسلط لوگوں" اور ملک میں ہونے والے چھوٹے اور فضول واقعات کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ آپ خود دیکھیں دن بھر میں عام آدمی کے لیے میڈیا کے پاس کتنا وقت ہے۔
خبریں، ٹاک شوز، ڈرامے، مورننگ شوز حتیٰ کہ کامیڈی شوز سب ایلیٹ کلاس کے لیے ہیں۔ ایک خوابوں کی دنیا ہے جو دکھائی جا رہی ہے۔ جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہاں کرائم سے جڑے پروگرامز میں عوام ضرور موجود ہیں۔ Whatsapp کے زیادہ تر مسیج یا تو سیاست کے ہوتے ہیں یا مزاح کے متعلق۔ مزاح تخلیق کرنا یقیناََ بہت تخلیقی کام ہے مگر اسکا اظہار پھر وہی لوگوں یا واقعات پر ہو رہا ہے۔
great مائنڈ بننے کے لیے آئیڈیاز، نظریات اور تخلیقی صلاحیتوں کو وقت دیں۔ آپ کا وقت بدل جائیگا۔ اپنا وقت مقام اور رتبہ بدلنے کی کوشش میں لگائیں۔ اپنا پیٹ بھرنے کی فکر کریں۔ جن کے پیٹ ناف تک بھرے ہیں، اور جن کے پاؤں زمین پر کم ہی ٹکتے ہیں اور جو سیلاب یا کسی بھی آفت کا معائنہ بھی ہیلی کاپٹر سے کرتے ہیں ان کے لیے یوتھ کا دماغ ایک ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں۔